میڈیا باہر ہے آپ اندر کیسے آئے؟ انڈین پولیس کا سوال

جب میں شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کے مرکزی مقام تاج ایگزوٹیکا پہنچی اور ویڈیوّ بنانا شروع کیں تو وہاں موجود پولیس حکام نے ہم سے پوچھا کہ ’میڈیا تو باہر کھڑا ہے تو آپ لوگ اندر کیسے آئے؟‘ جواب سن کر وہ دانت پیس کر رہ گئے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس دو دن جاری رہنے کے بعد اختتام پذیر ہوا۔

اجلاس کے اختتام پر پاکستان اور انڈیا کے وزرائے خارجہ کی صحافیوں سے گفتگو میں ایک دوسرے کے خلاف جملوں سے مثبت ماحول میں کچھ تلخی سی پیدا ہو گئی۔

بدھ کے روز دن ساڑھے 12 بجے براستہ واہگہ اٹاری پہنچے تو باہر انڈین میڈیا پاکستانی صحافیوں سے بات کرنے کے لیے بے چین کھڑا تھا۔

کچھ صحافیوں نے ان سے بات کی جبکہ زیادہ تر کو امرتسر ایئرپورٹ پہنچنے کی جلدی تھی تاکہ دہلی کی فلائٹ پکڑ سکیں۔

ایک گھنٹے کے ہوائی سفر کے بعد دہلی پہنچے تو وہاں بارش ہو رہی تھی۔

چونکہ فلائٹ مقررہ وقت سے قدرے تاخیر سے پہنچی تھی اس لیے گوا فلائٹ کے لیے وقت کم تھا۔ دہلی سے گوا کی فلائٹ کا وقت ڈھائی گھنٹے ہے۔ رات گئے گوا پہنچی تو شدید تکان تھی۔

گوا چونکہ سیاحتی مقام ہے اس لیے ہوٹلوں کی یہاں کوئی کمی نہیں، ہمیں بھی ہوٹل میسر آ گیا۔

اگلی صبح شنگھائی تعاون تنظیم کی کوریج کے لیے بنائے گئے میڈیا سینٹر کا دورہ کیا اور خصوصی کارڈز حاصل کیے۔

اس کے بعد اجلاس کے مرکزی مقام تاج ایگزوٹیکا پہنچی تو گیٹ پہ کھڑے پہرے دار نے ہماری گاڑی کو اندر جانے دیا اور کچھ خاص توجہ نہ دی لیکن اندر جا کر جب جذبات میں آ کر ہم نے وڈیوز بنانا شروع کیں تو وہاں موجود پولیس حکام کا ماتھا ٹھنکا اور انہوں نے ہم سے پوچھ گچھ کی کہ ’میڈیا تو باہر کھڑا ہے تو آپ لوگ اندر کیسے آئے؟‘

ہم نے انہیں بتایا کہ مرکزی گیٹ سے ہی آئے ہیں تو وہ اپنی سکیورٹی کے جھول پر دانت پیس کر رہ گئے اور ہمیں باہر چلنے کو کہا جہاں سارا میڈیا موجود تھا۔

ایک پولیس والا ہمارے ساتھ چل کر آیا تاکہ تسلی کر سکے کہ ہم باہر جا چکے ہیں۔

سہ پہر کے قریب پاکستانی وزیر خارجہ تاج ہوٹل کے باہر پہنچے تو سارا میڈیا اپنے کیمروں سمیت ان کی گاڑی کی طرف لپکا لیکن وہ گاڑی میں سے ہی ہاتھ ہلا کر اندر چلے گئے۔

انڈین میڈیا میں کافی صحافیوں سے مختلف فورمز کے توسط سے واقفیت تھی اور وہ ہمیں جانتے تھے۔

چار مئی کو ’کلچرل نائٹ‘ کے بعد جب کچھ سفارتی حکام سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ’پہلا دن تو مثبت گزر گیا ہے لیکن ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے، اہم دن پانچ مئی ہے اس لیے تب تک کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ کیوں کہ انڈین وزیر خارجہ کی تقریر پر منحصر ہے۔‘

وہی ہوا جس کا خدشہ تھا جب پانچ مئی کی صبح ہم میڈیا سینٹر پہنچے اور انڈیا کے وزیر خارجہ جے شنکر نے اپنی تقریر میں سرحد پار دہشت گردی کا ذکر کر کے پاکستان کی طرف اشارہ دیا تو پاکستان دفتر خارجہ کو بھی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی تقریر تبدیل کرنا پڑ گئی۔ جس میں بلاول بھٹو زرداری نے انڈین وزیر خارجہ کی بات کا جواب دیا کہ ’ہمیں سفارتی پوائنٹ سکورنگ نہیں کرنی چاہیے۔‘

اس کے بعد انڈین اور پاکستانی میڈیا دونوں وزرائے خارجہ کی تقاریر کا تقابلی جائزہ لے کر میڈیا سینٹر میں ڈسکشن کرتے رہے جس میں انڈین صحافیوں کا یہ کہنا تھا کہ چونکہ انڈیا میں ریاستی الیکشن بھی ہونے والے ہیں اس لیے یہ انڈین سیاستدانوں کی مجبوری ہے کہ وہ ایسے ہلکے پھلکے بیان دیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ماضی میں جیسا جارحانہ رویہ ہوتا تھا کم از کم ویسا رویہ نہیں تھا اور شنگھائی تعاون تنظیم سے دوطرفہ مذاکرات کی ایک کھڑکی کھلی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جبکہ پاکستانی صحافیوں نے یہ واضح کیا کہ ’پاکستان تو ہمیشہ پرامن ہمسائے چاہتا ہے لیکن جارحانہ بیانات کی ابتدا ہمیشہ انڈیا کی طرف سے کی جاتی ہے جس کا پھر پاکستان کو جواب دینا ہوتا ہے۔‘

جمعے کی شام کو پاکستانی وزیر خارجہ نے اپنے صحافیوں سے ملاقات کی اور سوالات لیے جبکہ انڈین وزیر خارجہ نے بھی انڈین صحافیوں سے بات چیت کی جس میں شنگھائی تعاون تنظیم کی تقریر سے جارحانہ انداز اپنایا اور پاکستانی وزیر خارجہ کو دہشت گردی کی صنعت کا ’فروغ دینے والا، اور اس کا ترجمان‘ قرار دیا۔

اس طرح ایک خوشگوار ماحول میں شروع ہونے والی ملاقات کا اختتام ایک دوسرے پر الزام تراشی اور ایک دوسرے کے خلاف بیانات پر ہوا۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان مملکت کا اجلاس دہلی میں رواں برس جولائی میں ہو گا۔ اجلاس میں موجود صحافیوں کے مطابق ’موجودہ پیدا ہونے والے صورتحال سے جولائی سمٹ پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا