کیا بلاول بھٹو کو انڈیا جانا چاہیے؟

یہ فنی اعتبار سے انڈیا کا دورہ نہیں۔ اگرچہ مقام انڈیا ہے لیکن وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری جس اجلاس میں جا رہے ہیں وہ کثیر الملکی تنظیم شنگھائی تعاون کونسل کا اجلاس ہے، انڈیا کا نہیں۔

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری 15 اکتوبر، 2022 کو کراچی میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں (اے ایف پی)

انڈیا کے زیر اتنظام کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد پاکستان نے انڈیا سے سفارتی تعلقات محدود کر لیے تھے تو کیا اب جب کہ وادی میں حالات جوں کے توں ہیں، پاکستان کے وزیر خارجہ کو انڈیا میں منعقد ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں جانا چاہیے؟

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن سکتے ہیں۔

کشمیر کا معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ نظر انداز کر دیا جائے۔ تاہم وزیر خارجہ کے حالیہ دورے کی اہمیت، معنویت اور اس کا سیاق و سباق سمجھے بغیر اس سوال کا جواب تلاش نہیں کیا جا سکتا۔

اس ضمن میں چند باتیں اہم ہیں:

 یہ فنی اعتبار سے انڈیا کا دورہ نہیں ہے۔ اگرچہ مقام انڈیا ہے لیکن وزیر خارجہ جس اجلاس میں جا رہے ہیں وہ کثیر الملکی تنظیم شنگھائی تعاون کونسل کا اجلاس ہے، انڈیا کا نہیں۔ اس دورے کی مصروفیات کا تعلق بھی دو طرفہ امور سے نہیں، خطے کے معاملات سے ہے۔

شنگھائی تعاون کونسل کا بنیادی محرک چین ہے، انڈیا نہیں۔ اس تنظیم کا صدر دفتر بھی بیجنگ میں ہے، دہلی میں نہیں۔ پاک چین تعلقات کی نوعیت اور اہمیت ایسی ہے کہ پاکستان کے لیے خود کو اس سے الگ رکھنا مناسب نہیں۔

شنگھائی تعاون تنظیم اصل میں شنگھائی فائیو ہی کی ایک ارتقائی شکل ہے اور یہ فورم بنانے والوں میں انڈیا شامل نہیں تھا۔ اس میں اہم کردار چین اور روس کا ہے۔ اس کی سرکاری زبان چینی اور روسی ہے۔ چین کی طرح روس سے بھی ہمارے تعلقات کا تقاضا ہے کہ ہم اس تنظیم کے اجلاس کا بائیکاٹ نہ کریں۔

یہ تنظیم علاقائی قوتوں کے متحرک ہونے کی علامت ہے جو وسیع تر سفارتی امکانات کی دنیا میں ہمارے لیے فائدہ مند ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ نے اس تنظیم میں ’آبزرور‘ کے طور پر شریک ہونے کی درخواست کی تھی جو رد کر دی گئی تھی۔

یہ بھی اہم ہے کہ اس تنظیم کے زیر اثر ازبکستان نے امریکہ سے کرشی خان آباد ایئر بیس خالی کرنے کا کہا تھا۔ یہ تنظیم گویا اس خطے میں طاقت کے توازن کا ایک اہم عامل ہے۔ اس کے اجلاس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستان کے معاشی مسائل کے تناظر میں بھی اس تنظیم کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ دنیا کی کل آبادی کا 40 فیصد اس تنظیم سے جڑا ہوا ہے۔ دنیا کی مجموعی جی ڈی پی کا 20 فیصد اس سے وابستہ ہے۔ اس کے مقاصد میں بھی معیشت ایک بنیادی چیز ہے۔ پاکستان امکانات کی اس دنیا سے الگ کیسے رہ سکتا ہے؟

اس اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا مطلب انڈیا کو ’واک اوور‘ دینا ہے۔ انڈیا کی یہ خواہش ہو سکتی ہے کہ پاکستان اس میں شرکت نہ کرے۔

انڈیا کی یہ خواہش کسی کوشش کا روپ بھی دھار سکتی ہے کہ ایسے حالات بنا دیے جائیں کہ ہاکستان کے لیے اس میں شریک ہونا ممکن نہ رہے۔

انڈیا کے زیر اتنظام کشمیر میں ’آل ہندو ملیشیا‘ کے عنوان سے مسلح عسکری تنظیم کھڑی کر کے اس میں اسلحے کی تقسیم جاری ہے۔ مودی حکومت پلوامہ جیسا کوئی نیا مس ایڈ ونچر بھی کر سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں حالات ایسا رخ بھی اختیار کر سکتے ہیں کہ پاکستان کے وزیر خارجہ وہاں جانے کا فیصلہ منسوخ کر دیں۔

کشمیر ہمارا بنیادی مسئلہ ہے۔ لیکن اس کے حل کے لیے بھی سفارتی تحریک ضروری ہے۔ ہم انڈیا سے تو سفارتی تعلقات محدود تر کر سکتے ہیں لیکن ہم دنیا کے اجتماعی معاملات سے الگ ہو کر خود کو تنہائی کا شکار نہیں کر سکتے۔

شنگھائی تعاون تنظیم اس خطے میں طاقت کے تبدیل ہوتے توازن کا ایک نقش ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ نیٹو کی طرح عسکری نہیں بلکہ بنیادی طور پر معاشی تنظیم ہے۔ مضبوط معیشت کے بغیر مستحکم خارجہ پالیسی ممکن ہی نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خطے میں نئی صف بندی کا عنوان ہی معیشت ہے۔ تمام تر تنازعات پر اپنا اصولی موقف برقرار رکھتے ہوئے ان امکانات کے ساتھ منسلک ہونا معاشی طور پر ہی نہیں تزویراتی طور پر بھی ضروری ہے۔

چین ایک عالمی قوت کے طور جس طرح فعال ہوا ہے، سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس میں بھی معیشت کو جوہری حیثیت حاصل ہے۔ سعودی عرب اور ایران بھی اگر قریب آ رہے ہیں تو یہ چین کی اسی سفارت کاری کے ساتھ ساتھ معاشی امکانات کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے۔

کامیاب خارجہ پالیسی کا مطلب یہ نہیں کہ خود کو تنہا کر لیا جائے۔ تنہائی کسی بھی عنوان سے ہو، تنہائی ہی ہوتی ہے۔ سفارت کاری تنہا ہو جانے کا نام نہیں، یہ امکانات کا جہان آباد کرنے کا نام ہے۔

سفارت کاری کے خدوخال محض جذبات سے نہیں متعین نہیں کیے جا سکتے۔ یہ جذبات اور زمینی حقائق کے ادراک کا ایک امتزاج ہوتا ہے جو ان کی صورت گری کرتا ہے۔

جو پیغام نہ جا کر دیا جا سکتا ہے، وہی پیغام وہاں جا کر اس سے زیادہ موثر طریقے سے دیا جا سکتا ہے۔ بس سمت واضح ہونی چاہیے اور یکسوئی ہونی چاہیے۔

یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ