پاک سعودی تعلقات روایتی طور پر دوستانہ رہے ہیں۔ دنیا کے بیشتر مسائل پر دونوں برادر ملکوں کا نقطہ نظر تقریباً یکساں رہا ہے۔ یہ تعلقات اس لحاظ سے بھی ممتاز ہیں کہ یہاں مادی اور روحانی زاویے دونوں اہم ہیں۔
سعودی عرب میں کعبہ شریف ہمارا قبلہ ہے اور اس وسیع و عریض ملک میں 20 لاکھ پاکستانی بھی کام کرتے ہیں جو قیمتی زرمبادلہ اپنے ملک بھیجتے ہیں۔
بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر کے اعتبار سے سعودی عرب دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے۔ لیکن ماضی قریب میں پاک سعودی تعلقات بھی اتار چڑھاؤ کا شکار رہے۔
ایک عشرہ پہلے جب پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنی افواج یمن بھیجے تو اس مسئلے پر پارلیمان میں بحث کے بعد پاکستان نے معذرت کر لی۔
یہ فیصلہ درست تھا کیونکہ پاکستان کی پالیسی ہے کہ وہ عرب تنازعات میں فریق نہیں بنے گا اور ویسے بھی اب یہ فیصلہ صائب نظر آ رہا ہے کیونکہ یمن کی بے سود جنگ سے سعودی عرب خود کنارہ کشی کی کوشش کر رہا ہے۔
دوسری بار تناؤ کے لمحات وہ تھے جب پاکستان نے ترکی اور ملائیشیا کی تحریک پر او آئی سی کا سربراہ اجلاس کوالالمپور میں بلانے کی تجویز کی حمایت ظاہر کی لیکن اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو جلد یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں دفاعی تعاون ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ فوجی تربیت سے لے کر مشترکہ مشقوں تک دونوں ممالک نے عسکری استعداد کا طویل سفر طے کیا ہے اور یہ تعاون ہنوز جاری ہے۔
پاکستانی سپاہی اور افسر متعدد بار برادر ملک میں فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ کسی بھی ملک کے عسکری دستوں کو تب ہی بلایا جاتا ہے جب اس ملک پر سو فیصد اعتبار ہو اور تعلقات کا یہ رخ دونوں ممالک کی قربتوں پر دلالت کرتا ہے۔
اب آتے ہیں تعلقات میں تازہ ترین پیش رفت کی طرف۔ سعودی عرب کے پاس وافر فنڈز ہیں جبکہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے روشن مواقع موجود ہیں۔
سرمایہ کاری کی بات کئی سالوں سے چل رہی ہے تو پھر اب تک سرمایہ کاری کیوں نہیں ہو سکی؟ سرمایہ کار عام طور پر اس ملک کا رخ کرتے ہیں جہاں سیاسی استحکام ہو اور پالیسیوں میں تسلسل پایا جاتا ہو۔
پاکستان میں یہ بات ناپید رہی ہے۔ دوسری چیز منصوبے کو جاذب نظر بنانے کے لیے عالمی سطح کی فیزیبیلیٹی رپورٹ ہوتی ہے جس سے سرمایہ کار پر واضح ہو جائے کہ منصوبہ فائدہ مند ہو گا۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے ایک اعلیٰ سطح کے سرمایہ کاری وفد کے ساتھ پاکستان کا دورہ کیا ہے۔ وفد کو مفصل بریفنگ کے علاوہ پروفیشنل سٹینڈرڈ کی فیزیبیلیٹی رپورٹس بھی دی گئیں۔
اس دوران وفد صدر آصف علی زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے بھی ملا۔ وزیر اعظم نے وفد کو بتایا کہ اس مرتبہ ہم نے عالمی ماہرین کے مشورے سے فیزیبیلیٹی رپورٹس تیار کی ہیں۔
وزیراعظم کی یہ بات غمازی کرتی ہے کہ شاید اس سے پہلے والی فیزیبیلیٹی رپورٹس میں کوئی سقم رہ گیا تھا اور اس سے زیادہ جس بات پر ماتھا ٹھنکا وہ یہ کہ 77 سال گزرنے کے بعد بھی ہمیں سرمایہ کاری کے لیے منصوبے کی فیزیبیلیٹی بنانے کے لیے غیر ملکی ماہرین کا مشورہ درکار ہے۔
کیا ہماری بیوروکریسی میں اتنی بھی صلاحیت نہیں۔ یقیناً ان کی تربیت میں کوئی سقم ہے۔
دراصل سعودی وفد کا یہ دورہ وزیراعظم اور ولی عہد کے درمیان مکہ مکرمہ میں ہونے والی ملاقات کا تسلسل ہے، جہاں سعودی عرب کے ولی عہد نے پاکستان میں جلد سرمایہ کاری کا عندیہ دیا تھا۔
وفد کے دورے میں سرمایہ کاری کے لیے تین شعبے بطور خاص چنے گئے اور وہ ہیں زراعت، توانائی اور معدنیات۔ یہ تینوں شعبے غیر ملکی سرمایہ جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سعودی وفد نے سپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (سی آئی ایف سی) کے اجلاس میں بھی شرکت کی۔
سی آئی ایف سی پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے اعلیٰ ترین فورم ہے جس کی صدارت وزیراعظم کرتے ہیں اور آرمی چیف اس فورم کے رکن ہیں۔
یہ ایک ون ونڈو آپریشن ہے تاکہ غیرملکی سرمایہ کاروں کو کئی دفتروں کے چکر نہ کاٹنا پڑیں۔
خارجہ تعلقات کی متعدد جہیتیں ہوتی ہیں مثلاً سیاسی تعاون جہاں دونوں ممالک اقوام متحدہ اور او آئی سی وغیرہ میں ایک یا ملتا جلتا موقف اختیار کرتے ہیں۔
پاکستان اور سعودی عرب مسئلہ کشمیر اور فلسطین پر یکساں پوزیشن رکھتے ہیں اور اب اسلاموفوبیا کے خلاف مل کر جدوجہد کر رہے ہیں۔
ہمارے تعلقات کی دوسری اور بے حد اہم جہت عسکری تعاون ہے۔ تیسری جہت دوطرفہ تجارت ہے جس کو بڑھانے کے لیے زیربحث دوسرے میں بات چیت ہوئی ہے اور اب سرمایہ کاری کا اضافہ ہونے کو ہے، جس سے پاکستان کا گروتھ ریٹ بہتر ہو گا، روزگار کے نئے مواقع کھلیں گے اور برآمدات می اضافہ ہوگا اور دونوں برادر ممالک کے تعلقات میں ایک نئے ایندھن کا اضافہ ہوگا۔
ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ان منصوبوں کے لیے فل پروف سکیورٹی مہیا کریں۔ سرمایہ کار ان پرندوں کی مانند ہوتے ہیں جو فضا سے آہستہ آہستہ زمین پر اترتے ہیں لیکن بندوق کا ایک فائر ہو جائے تو اس کی آواز سن کر سہم جاتے ہیں اور آناً فاناً اڑ جاتے ہیں۔
پانچ ارب ڈالر کی متوقع سعودی سرمایہ کاری دراصل ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اگر یہ منصوبے کامیاب ہو جاتے ہیں تو پاکستان میں مزید سرمایہ کاری ہوگی جو 25 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔
اس بار تجویز کردہ منصوبوں کی حمتی منظوری سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورے میں دی جائے گی جو جلد متوقع ہے۔
چونکہ سعودی سرمایہ کاری وفد وزیر خارجہ کے زیر قیادت آیا تھا، لہٰذا دونوں وزرا نے خطے کی صورت حال پر بھی بات کی جو کسی صورت تسلی بخش نہیں۔
مشترکہ بیان میں غزہ کی جنگ میں فوری سیز فائر کا مطالبہ کیا گیا۔ سعودی وزیر خارجہ نے اپنے دورے کو باثمر قرار دیا ہے۔
وفد میں شامل تمام لوگ سرمایہ کاری کے ٹیکنیکل ایکسپرٹ تھے۔ اس دورے کی کامیابی پاک سعودی تعلقات میں نئے اور خوش آئند باب کی آمد کی دلیل ہے۔
اب ہمارا فرض ہے کہ ان منصوبوں کو مکمل شفافیت سے چلائیں اور ان کے لیے میرٹ پر سلیکٹ کر کے باصلاحیت ہنرمنر اور اہلکار لگائیں۔
ان منصوبوں سے ہٹ کر سعودی عرب کو قومی ایئرلائن، ایئر پورٹس اور ہوٹل انڈسٹری میں بھی سرمایہ کاری کی ترغیب دی جا رہی ہے۔
آئل ریفائنری کے علاوہ ہمیں شمسی اور ونڈ ملز کے ذریعے تونائی حاصل کرنے کے منصوبے بھی حتمی شکل میں بیرونی سرمایہ کاروں کے سامنے رکھنا چاہییں کیونکہ پوری دنیا کلین انرجی کی جانب رواں دواں ہے۔
برادر ملک سعودی عرب کی پاکستان میں کامیاب سرمایہ کاری سے خلیج اور اس سے باہر دوسرے ممالک کو بھی وطن عزیز میں سرمایہ کاری کی ترغیب ملے گی۔
اب یہ ہمارے ماہرین کا کام ہے کہ اس سارے عمل کی کامیابی کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔
اس تحریر کے مصنف جاوید حفیظ سابق سفیر ہیں اور مشرق وسطیٰ کا طویل تجربہ رکھتے ہیں۔