سول سوسائٹی کا اے پی ایس کمیشن رپورٹ عام کرنے کا مطالبہ

سول سوسائٹی نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ واقعے کے کئی سال گزرنے کے بعد اب کمیشن کی مرتب کردہ رپورٹ جاری کرے۔

پاکستان کی سول سوسائٹی نے منگل کو پشاور میں 11 سال قبل آرمی پبلک سکول میں عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد بننے والے کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

پشاور کے آرمی پبلک سکول پر 16 دسمبر 2014 کو ہونے والے حملے میں 134 سے زائدہ بچوں کی موت ہوئی تھی۔

اسلام آباد میں واقع نیشنل پریس کلب کے باہر سول سوسائٹی نے منگل کو حملے میں مارے جانے والوں کی یاد میں شمعیں روشن کیں۔

ساتھ ہی شرکا نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ واقعے کے کئی سال گزرنے کے بعد اب کمیشن کی مرتب کردہ رپورٹ جاری کرے۔

فاطمہ عارف گذشتہ 11 برس سے اے پی ایس واقعے کے متاثرین کے لیے شمعیں روشن کرنے کی تقریب کا انتظام کرتی آ رہی ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ یہ محض ایک یادگاری تقریب نہیں بلکہ انصاف کے مطالبے کی علامت ہے۔

’یہ افسوس ناک بات ہے کہ سانحہ اے پی ایس میں اپنے بچے کھونے والے والدین اور وہاں مارے جانے والے سٹاف کو آج تک انصاف نہیں مل سکا۔‘

فاطمہ عارف جو ایک سماجی کارکن بھی ہیں کہتی ہیں کہ اے پی ایس واقعے کی تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے کمیشن کی رپورٹ آج تک منظر عام پر نہیں لائی گئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’رپورٹ کو اس لیے خفیہ رکھا گیا ہے کیونکہ اس میں ایسے حقائق شامل ہیں جنہیں عوام کے سامنے آنے نہیں دیا جا رہا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’احتجاج کا ایک بنیادی مطالبہ یہی ہے کہ کمیشن رپورٹ کو بلا تاخیر پبلک کیا جائے۔‘

احتجاج کے دوران یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف آج تک مؤثر کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟

اے پی ایس پر 16 دسمبر 2014 کو ہونے والے حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان نامی منصوبے کو ترتیب دیا گیا تھا جس میں تمام سیاسی جماعتوں اور عسکری حکام نے ملک سے شدت پسندی ختم کرنے کا اعادہ کیا تھا۔

فاطمہ عارف سمیت تقریب میں شریک افراد یہی کہتے نظر آئے کہ ’گذشتہ تمام حکومتیں اس معاملے میں ناکام نظر آتی ہیں، حالانکہ آئین پاکستان کے مطابق ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی جان، مال اور عزت کا تحفظ کرے۔

’اے پی ایس کے معاملے میں ریاست یہ ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہی ہے اور اب بھی ناکام دکھائی دیتی ہے۔‘

تقریب میں شریک ڈاکٹر بشیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اے پی ایس پشاور کا سکول ایک انتہائی حساس اور محفوظ علاقے میں واقع ہے، اس کے باوجود ’دہشت گردوں کا ایک کینٹ کے علاقے میں واقع سکول تک پہنچ جانا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ لہذا کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لانا اور بھی ضروری ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان