’ہم نے 40 افراد گرا دیے ہیں۔‘ حملہ آور نے فون کال پر صحافی کو بتایا اور اسی کال نے پوری دنیا کو لرزا دیا تھا، جب 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) حملے میں 134 سے زیادہ بچوں کو مارا گیا۔ آج اس واقعے کے 11 سال مکمل ہو گئے ہیں۔
یہ کال پشاور میں مقیم سینیئر صحافی رفعت اللہ اورکزئی کو سکول کے اندر سے ایک حملہ آور نے کی تھی، جس سے حملے میں بچوں کی موت کی تصدیق ہوئی تھی۔
رفعت اللہ اورکزئی نے، جو اس وقت بی بی سی اردو کے ساتھ وابستہ تھے، انڈپینڈنٹ اردو کو اس دن کے واقعات بتاتے ہوئے کہا کہ ’صبح کے وقت تقریباً 10 بجے میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی اور جب دیکھا تو نمبر افغانستان کا تھا۔‘
انہوں نے بتایا، ’جب کال اٹھائی تو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے اس وقت پشاور اور درہ آدم خیل کے کمانڈر خلیفہ عمر منصور تھے اور بتایا کہ ہم نے ورسک روڈ پر واقع ایک سکول پر حملہ کیا ہے۔
’میں نے کال کو اتنا سنجیدہ نہیں لیا کیونکہ اس وقت تک اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ واقعی کوئی بڑا حملہ ہوا ہے جبکہ دوسری جانب میں ناک کے آپریشن کی وجہ سے چھٹی پر تھا۔‘
انہوں نے یاد کیا کہ ’تقریباً ایک گھنٹے بعد میں نے ٹی وی پر ٹکرز دیکھے کہ ورسک روڈ پر ڈاکو یا کسی حملہ آوروں کی پولیس کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے اور تب اندازہ ہوا کہ واقعی کچھ ہوا ہے۔‘
پشاور میں جس آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) کی برانچ پر حملہ ہوا تھا وہ ورسک روڈ پر واقع ہے اور مرکزی سڑک سے سکول تک پہنچنے کے لیے تقریباً 10 منٹ پیدل چلنا پڑتا ہے۔
رفعت اللہ اورکزئی نے بتایا کہ حملے کے دوران انہیں خلیفہ عمر منصور کی جانب سے چار کالیں موصول ہوئی اور انہیں ایک نمبر بھی دیا گیا کہ سکول کے اندر سے ایک حملہ آور بھی کال کرے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’کچھ وقت کے بعد اسی نمبر سے کال آ رہی تھی اور پہلے تو میں نے سوچا کال نہ اٹھاؤں لیکن بطور صحافی ایک تجسس ہوتا ہے تو چار پانچ مرتبہ گھنٹی بجنے کے بعد کال اٹھائی تو سکول کے اندر سے حملہ آور تھا۔
’حملہ آور نے سکول پر حملے کی بات کی تو میرا ان کے ساتھ ارگومنٹ بھی ہوا کہ معصوم بچے ہیں اور سکول ہے یہ تم لوگ کیا کر رہے ہو تو جواب میں بتایا گیا کہ نہیں یہاں فوج کا ایک بڑا مرکز بھی ہے اور پشتو میں بتایا کہ ہم نے 40 افراد گرا دیے ہیں۔‘
بعدازاں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال زخمیوں کی عیادت کے لیے آئے اور میڈیا سے گفتگو میں پہلی مرتبہ انہوں نے 80 بچوں کی موت کی تصدیق کی تھی۔
رفعت اللہ کو آنے والی فون کال اور پرویز خٹک کی تصدیق تھی کہ پورا ملک لرز اٹھا۔ قومی اور بین الاقوامی میڈیا کی نظریں پشاور پر لگ گئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بی بی سی کی ٹیم کو رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق پہلے سکول تک رسائی دی گئی تھی لیکن صرف دور سے ہمیں دکھایا گیا تھا جبکہ سکول کے اندر بہت دنوں تک جانے کی اجازت نہیں تھی۔
اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے حوالے سے بھی ٹی ٹی پی قیادت بعد میں ابہام کا شکار ہو گئی تھی اور رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق اے پی ایس حملے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی کے مرکزی ترجمان کی جانب سے قبول نہیں کی گئی بلکہ یہ کام خلیفہ عمر منصور سے کروایا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا، ’حملے کا ردعمل جب بہت زیادہ آیا تو مرکزی ترجمان نے لاتعلقی کا اعلان کیا جبکہ افغان طالبان اور القاعدہ کی جانب سے بھی اس حملے کی مذمت کی گئی تھی۔‘
بعد میں امریکہ میں پینٹاگون کے ترجمان پیٹر کوک نے تیرہ جولائی 2016 کو ایک ہنگامی پریس کانفرنس بلائی۔ انہوں نے مائیک سنبھالتے ہی کہا کہ ’افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں امریکہ کی جانب سے داعش کے ممکنہ ٹھکانوں پر ڈرون داغے گئے جن میں چار عسکریت پسند مارے جا چکے ہیں اور اب تصدیق کی جاتی ہے کہ ان میں آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) حملے کا ماسٹر مائنڈ عمر منصور بھی مارا گیا ہے۔‘
اس طرح سولہ دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک سکول میں سو سے زائد بچوں کے قتل عام کی جو داستان شروع ہوئی، اس کا ایک کردار اختتام کو پہنچا۔
واقعہ اتنا بڑا تھا کہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے وزیراعظم میاں نواز شریف کو باقاعدہ فون کر کے اس بڑی کامیابی کی خبر دی، کیونکہ اے پی ایس واقعے کے بعد پاکستان مسلسل اے پی ایس کے ماسٹر مائنڈ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہا تھا۔
اے پی ایس پر 16 دسمبر 2014 کو حملے کے بعد دہشت گردی کو ملک سے ختم کرنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان نامی منصوبے کو ترتیب دیا گیا تھا جس میں تمام سیاسی جماعتوں اور عسکری حکام نے ملک سے شدت پسندی ختم کرنے کا اعادہ کیا تھا۔
ملک میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں شروع کی گئیں اور رفعت اللہ کے مطابق اس وقت شدت پسندوں کے ٹھکانے ختم کیے گئے اور زیادہ تر افغانستان چلے گئے تھے۔
مبصرین کے مطابق اس حملے کے بعد ملک میں شدت پسند کارروائیوں میں کمی آئی تھی لیکن اب دوبارہ خیبر پختونخوا میں ان واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ان کارروائیوں میں اضافے کی پہلی وجہ افغانستان میں افغان طالبان کی حکومت کا آنا اور وہاں سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا کارروائیاں کرنا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق دوسری وجہ صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان سیاسی اختلاف ہے اور کوئی حکومت بھی حالات کو قابو کرنے کی ذمہ داری لینے میں ’سنجیدہ نظر نہیں‘ آ رہی۔