ایف بی آر ڈیجیٹلائزیشن 12 سے 18 ماہ میں مکمل ہو گی: وزیر خزانہ

محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ جب تک ان افراد یا اداروں کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جائے گا، جو فی الحال اس سے باہر ہیں تب تک مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔

15 اپریل 2024 کی اس تصویر میں پاکستانی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی سفارت خانے میں ایک انٹرویو کے دوران (اے ایف پی)

پاکستانی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں انسانی مداخلت کو ختم کرنے کے لیے ادارے کو مکمل طور پر ڈیجیٹلائز کرنے کا عمل آئندہ 12 سے 18 ماہ کے دوران مکمل کر لیا جائے گا، جس سے محصولات میں اضافہ متوقع ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی ریڈیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے ملکی معیشت، ایف بی آر اصلاحات اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے معاہدوں کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ سٹینڈ بائے ارینجمنٹ کے تحت آئی ایم ایف سے قرض کی آخری قسط ملنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان ضروری نظم و ضبط دکھا سکتا ہے اور آئی ایم ایف کے ساتھ بڑے اور طویل پروگرام کے لیے آگے بڑھ سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی آخری قسط ملنے سے ’ہماری ضروری ساکھ بحال ہوئی ہے۔ اس نے ہمیں اعتبار دیا ہے کہ ہم ایک ملک کے طور پر ضروری نظم و ضبط کا مظاہرہ اور اس پر عمل درآمد کر سکتے ہیں، لیکن یہ ہمیں اب آئی ایم ایف کے ساتھ مزید بات چیت کرنے کی اجازت دیتا ہے تاکہ ایک بڑے اور طویل پروگرام کے لیے آگے بڑھیں۔‘

پاکستانی وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کے آخری قسط جاری کرنے کے بارے میں مزید کہا کہ ’اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ یہ ہمیں میکرو اکنامکس میں مزید استحکام لانے میں مدد دے گا، جس کا آغاز اس نو ماہ کے سٹینڈ بائے ارینجمنٹ پروگرام کے ذریعے کیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ ہمیں آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اصلاحاتی ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے ضروری خدوخال اور ضروری ٹائم فریم فراہم کرے گا۔‘

جب ان سے سوال کیا گیا کہ اس پروگرام پر عمل درآمد کیسے ہوگا کیوں کہ جب لوگ شعبہ جات چلاتے ہیں تو وہ سیاسی طور پر لوگوں کی زندگیاں تبدیل کرنے کے لیے خرچے کرتے ہیں، آپ اس پر کیسے قابو پائیں گے؟

اس سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا: ’آپ دیکھتے ہیں کہ ان چیزوں کو ایک ساتھ چلنا ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ ہم بہت طویل عرصے سے جانتے ہیں کہ کیا اور کیوں ہے، کیوں کہ اگر میں آپ کو بتاؤں کہ اس اصلاحاتی ایجنڈے کی اہم ترجیحات کیا ہیں، سب سے پہلے ٹیکس ٹو جی ڈی پی ہے جو کہ 10 فیصد سے نیچے منڈلاتا رہا ہے۔ یہ پائیدار نہیں ہے، ہمیں اسے 13 سے 14 فیصد کی طرف لے جانا شروع کرنا ہوگا۔‘

جب محمد اورنگزیب سے سوال ہوا کہ ٹیکس انفرادی یا ذاتی نوعیت کے ہوں گے یا پھر اداروں پر لگائے جائیں گے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’سب چیزوں پر جو اس میں شامل ہیں کیوں کہ ہمیں دو پہلوؤں پر کام کرنا ہے۔ پہلے تو ہمیں قلیل مدت میں نظام کے نقائص دور کرنے ہیں اور پھر طویل مدت کے دوران ہمیں دیگر شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا اور اپنی جی ڈی پی کو 15 فیصد کے پیٹے میں لانا ہے۔‘

اس منصوبوں پر عمل درآمد کیسے کیا جائے گا؟ اس سوال کے جواب میں وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنی ٹیکس اتھارٹی (فیڈرل بیورو آف ریونیو) کو مکمل طور پر ڈیجیٹلائز کرنے جا رہے ہیں کیونکہ جب آپ کسی نظام سے انسانی مداخلت ختم کر دیتے ہیں تو محصولات میں اضافہ ہو جاتا ہے اور یہ کام آئندہ 12 سے 18 ماہ کے دوران مکمل ہو جائے گا۔‘

محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل افراد اور اداروں کو ایک دو سال کے لیے مزید ٹیکس کے بوجھ تلے دبایا جا سکتا ہے لیکن اس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکیں گے، جب تک ان افراد یا اداروں کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جائے گا جو فی الحال اس سے باہر ہیں اور ’ہم اس سمت میں سفر کر رہے ہیں۔‘

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ’ہم آئی ایم ایف کے 24ویں پروگرام میں داخل ہو رہے ہیں اور اس سے نکلنے کا واحد راستہ مارکیٹ تک واضح راستے پر ہی چل کر ممکن ہے۔ ہمیں اپنی برآمدات بڑھانی ہوں گی، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کرنی ہوگی اور اپنی درجہ بندی بہتر کرنی ہوگی تاکہ ہمیں بین الاقوامی کیپیٹل مارکیٹ میں رسائی حاصل ہو۔ ان تینوں پہلوؤں پر آئندہ دو سے تین سالوں پر عمل کرنا ہوگا تاکہ آئندہ کسی پروگرام کی ضرورت نہ پڑے۔‘

پاکستان نے جون 2023 میں آئی ایم ایف کے ساتھ تین ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ پر دستخط کیے تھے، جس سے اس جنوب ایشیائی ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچنے میں مدد ملی تھی۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو تین ارب ڈالر قرض ملنا تھا۔ اس سلسلے میں ادارے کے ایگزیکٹیو بورڈ کی منظوری کے بعد پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر کی تیسری اور آخری قسط 30 اپریل کو جاری کر دی گئی ہے۔

آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معاشی اور مالی پوزیشن میں قدر بہتری آئی ہے۔ اس فنڈ کے مطابق: ’پہلے جائزے کے بعد کے مہینوں میں پاکستان کی معاشی اور مالی حالت میں بہتری آئی ہے۔ احتیاط سے حکمت عملی بنانے، نیز کثیر الجہتی اور دو طرفہ شراکت داروں کی جانب سے رقوم کی بحالی کی وجہ سے ترقی اور اعتماد کی بحالی کا عمل  بھی جاری ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت