کامیڈی نے لیام نیسن کا کیریئر بچا لیا

یہ دیکھ کر اچھا لگتا ہے کہ ہالی وڈ کا سابقہ سپر ہیرو اب بدل چکا ہے۔ وہ عروج سے نیچے آ رہا ہے اور رفتار پکڑ رہا ہے۔ وہ اپنا کیریئر الٹا لے جا رہا ہے، جیسے اپنی عمر کی گھڑی پیچھے کر رہا ہو۔

برطانوی اداکار لیام نیسن 28 جولائی 2025 کو نیو یارک سٹی میں پیراماؤنٹ پکچرز کی فلم ’دی نیکڈ گن‘ کے امریکی پریمیئر میں شرکت کے موقعے پر (اے ایف پی)

ہر بڑے ایکشن ہیرو کی زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب دل تو اب بھی کام کرنے کو چاہتا ہے لیکن جسم کمزور پڑ جاتا ہے۔

اونچی کھڑکیوں سے چھلانگیں لگانا جوڑوں پر بھاری پڑنے لگتا ہے۔ رات گئے کار کا تعاقب آنکھوں پر بوجھ ڈالتا ہے اور غنڈوں کے ساتھ عام لڑائی بھی معمر افراد پر تشدد جیسی لگنے لگتی ہے۔

یہی کچھ راجر مور کے ساتھ 1985 کی فلم اے ویو ٹو اے کِل (A View to a Kill) میں ہوا اور چارلز بران سن کے ساتھ 1994 کی فلم ڈیتھ وش 5: فیس آف ڈیتھ‘ (Death Wish 5: Face of Death) میں ہوا۔ بالکل اسی طرح جیسے یہ سب ان کے 21 ویں صدی کے جانشینوں کے ساتھ بھی ایک دن ہونا باقی ہے۔

یہ خدا کا انداز ہے بڑے سٹارز کو بتانے کا کہ ان کی ایکشن فلموں کا دور ختم ہو چکا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ فلموں میں استعمال ہونے والا اپنا اسلحہ چھوڑیں اور کوئی نیا کام تلاش کریں۔

لیام نیسن حال ہی میں آرنلڈ شوارزنگر اور سلویسٹر سٹالون جیسے بڑے ایکشن سٹارز کی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں، جن کی مانگ کم ہو رہی ہے۔ ان کا نیا کام بھی بظاہر پہلے جیسا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ فلم دا نیکڈ گن (The Naked Gun) کے پوسٹر پر نظر آتے ہیں۔ پستول تھامے اور غصے میں باہر کی جانب دیکھتے ہوئے، بالکل اسی طرح جیسے وہ 2015 کی ’رن آل نائٹ‘ (Run All Night)، 2014 کی ’نان سٹاپ‘ (Non-Stop)، 2022 کی  ’بلیک لائٹ‘ (Blacklight) اور 2025 کی فلم ’آئس روڈ: وینجینس‘ (Ice Road: Vengeance) کے پوسٹرز پر دکھائی دیے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سنجیدہ تھرلر اور مزاحیہ فلم میں کوئی واضح فرق نظر نہیں آتا۔ بس بات اتنی ہے کہ انداز یا دیکھنے کے زاویے میں تھوڑی سی تبدیلی آ جائے۔

دوسری بار بننے والی ’نیکڈ گن‘ میں لیام نیسن کی لیفٹیننٹ فرینک ڈریبن جونیئر کے طور پر اداکاری کئی برسوں میں ان کا بہترین کام ہے۔ یہ 73 سالہ اداکار کے لیے روایتی طور پر عجیب و غریب کیریئر کے تیسرے مرحلے کی بھی علامت ہے۔ ایک ایسا شخص جو بڑے اداکاروں کی فہرست میں کبھی پوری طرح مطمئن نظر نہیں آیا۔

زیادہ تر اداکار بڑی اور باوقار پروڈکشن کی خواہش رکھتے ہیں اور اس بلند مقام تک پہنچنے کے لیے دہائیوں تک محنت کرتے ہیں۔ لیام نیسن نے الٹا سفر اختیار ، ان کے نزدیک نیچے کی طرف جانا زیادہ دلچسپ اور مزے دار ہوتا ہے۔

السٹر سے تعلق رکھنے والے لیام نیسن کا ماؤنٹ اولمپِس سفر اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے 1993 میں سٹیون سپل برگ کی آسکر جیتنے والی فلم شنڈلرز لسٹ (Schindler’s List) میں صنعت کار اور نجات دہندہ کا کردار ادا کیا۔

اس کے بعد وہ ہر اس کردار کے لیے سب سے پہلے منتخب کیے جانے لگے جس کے لیے پاٹ دار آواز اور سنجیدگی کی ضرورت ہو، چاہے وہ اسلن ہو یا زیئس، روب رائے ہو یا مائیکل کولنز۔ یہاں تک کہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید ایک موقعے پر یہ سب خود ان کے لیے بھی بوجھ بن گیا۔

لیام نیسن کے نصیب میں لکھا تھا کہ وہ 40 سال سے زیادہ کی عمر میں ہالی وڈ کے بڑے ستاروں کی صف میں شامل ہو جائیں۔ شاید آج بھی وہ وہیں ہوتے، اگر وہ خود کو اس دائرے سے نہ نکالتے اور غصیلے قاتل کرداروں میں نئی زندگی نہ ڈھونڈتے۔

انہوں نے سمجھا کہ لیوک بسن کی بنائی ہوئی 2009 کی فلم ’ٹیکن‘ (Taken) سیدھا ویڈیو پر جائے گی، مگر اس نے سینیما گھروں میں 230 کروڑ ڈالر کمائے اور نیچے کی طرف جاتے کیریئر کے درمیانی دور کا دروازہ کھول دیا، جس میں 2024 کی ’ایب سلوشن‘ (Absolution) اور 2023 کی ’ریٹری بیوشن‘ (Retribution) جیسی فلمیں شامل ہیں، جن میں لیام نیسن مختلف انداز رکھنے والے انتقامی غصیلے کرداروں میں نظر آئے۔

ان فلموں کی اکثریت نے خود کو بہت سنجیدہ لیا۔ یہی خاصیت کبھی کبھار ان کے لیے مسئلہ بن گئی یا جیسا کہ مولیئر نے تقریباً کہا تھا کہ 2014 کی فلم ’ٹیکن تھری‘ (Taken 3) سوچنے والوں کے لیے ایک مزاحیہ فلم ہے اور محسوس کرنے والوں کے لیے ایک درد بھرا المیہ۔

لیام نیسن کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے نیکڈ گن میں پوری سنجیدگی کے ساتھ اداکاری کی۔ یہ فلم پولیس پر بنائی گئی ایک ایسی مزاحیہ فلم ہے جو نہ صرف بے مزاحیہ ہے بلکہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جان بوجھ کر ایسا کیا گیا۔ ان کا کردار، یعنی سنجیدہ لہجے والا لاس اینجلس کا پولیس افسر، لزلی نیلسن (جو کبھی سنجیدہ کردار کرتے تھے اور بعد میں کامیڈی کی طرف آ گئے) کی روایت کو آگے بڑھاتا ہے، لیکن لیام نیسن ہوشیاری سے نقل کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

وہ یہاں اپنے ہی سکرین امیج کو چھیڑ رہے ہیں یعنی مزاح کا حصہ بنتے ہوئے، جیسا کہ سکرپٹ میں انہیں مختلف مزاحیہ مناظر اور جملوں کے درمیان الجھتا ہوا دکھایا گیا۔

اہم بات یہ ہے کہ وہ وہی درد اور شدت والے تاثرات برقرار رکھتے ہیں جو ہم نے ’ایب سولوشن‘، ’ریٹری بیوشن‘ اور دیگر کئی فلموں میں دیکھے، چاہے وہ ’مین سلاٹر‘ کو ’مینز لافٹر‘ سمجھنے میں الجھ جائیں یا بینک ڈکیتی میں داخل ہونے کے لیے خود کو سکول کی لڑکی (پورے منی سکرٹ اور تیز دھار والی لالی پاپ سٹک کے ساتھ) کے روپ میں پیش کریں۔

ان کی اداکاری بالکل جچتی ہے۔ لطیفے خوب رنگ جماتے ہیں۔ ہم لیام نیسن پر اس لیے بھی ہنستے ہیں کہ یہ کردار ان کے پچھلے ایکشن کرداروں کا مذاق اڑاتا ہے، مگر اس میں ان کے سنجیدہ اور بڑے کرداروں پر ہلکا سا طنز بھی چھپا ہے۔

ایکشن سے کامیڈی کی طرف جانا ایک بڑا جوا ہے اور اس میں ناکامی کی صورت میں خود اعتمادی کو ٹھیس اور شرمندگی کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔

شوارزنیگر نے 1988 کی ’ٹوئنز‘ (Twins) اور 1990 کی ’کنڈرگارٹن کاپ‘ (Kindergarten Cop) جیسی فلموں کے ساتھ کچھ حد تک کامیاب تبدیلی کی کوشش کی، جب کہ سٹالون 1992 کی ’سٹاپ اور مائی مام ول شوٹ‘ ( Stop! Or My Mom Will Shoot) کے ساتھ بری طرح ناکام رہے۔

لیام نیسن نے 2021 میں ’انٹرٹینمنٹ ٹونائٹ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ یا تو میرے کیریئر کو ختم کر دے گا یا اسے کسی اور طرف لے جائے گا۔‘

اس وقت ’نیکڈ گن‘ ٹو بن رہی تھی اور وہ 2021 کی ’دا مارکس مین‘ (The Marksman) کی تشہیر میں مصروف تھے۔ مگر انہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ وہ تو فطری طور پر کامیڈی کے ماہر نکلے۔

اب پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ لیام نیسن گذشتہ ایک دہائی سے اس صنف کے گرد ہی گھوم رہے تھے۔ وہ حالات کا جائزہ لے رہے تھے اور اس میں پوری طرح آنے کی تیاری کر رہے تھے۔ وہ سیٹھ مک فارلین کی 2014 کی فلم ’اے ملین ویز ٹو ڈائی ان دی ویسٹ‘ (A Million Ways to Die in the West) میں خفیہ ہتھیار ثابت ہوئے اور ’ڈیری گرلز‘ (Derry Girls) میں شاندار مختصر کردار ادا کیا۔ انہوں نے ڈونلڈ گلوور کی ’اٹلانٹا‘ (Atlanta) اور رکی جرویس کی ’لائف از ٹو شارٹ‘ (Life’s Too Short) میں اپنے ہی سنجیدہ انداز کے کردار نبھائے۔

وہ ’لائف از ٹو شارٹ‘ کے حوالے سے اصرار کرتے ہیں کہ ’میں مزاحیہ آدمی ہوں۔‘ وہ دفتر میں گھس کر سٹینڈ اپ کامیڈی کے کچھ جملے فی البدیہہ  سناتے ہیں۔ یہاں اصل مذاق یہ ہے کہ ’شنڈلرز لسٹ‘ کا ہیرو بالکل بھی مزاحیہ نہیں لگتا، مگر وہ یہ منظر اس قدر اعتماد سے ادا کرتے ہیں کہ اپنی عوامی شہرت کو کمال مہارت سے غلط ثابت کر دیتے ہیں۔

اچھی اداکاری کی سب سے بڑی پہچان یہی ہے کہ وہ اداکاری محسوس نہ ہو اور کوشش کا کوئی نشان نظر نہ آئے۔ لیام نیسن کی تازہ ترین تبدیلی بھی یہی ہے، جس میں وہ ایکشن ہیرو سے ایکشن کامیڈین بن جاتے ہیں اور ذرا بھی مشقت نظر نہیں آتی۔

یہ دیکھ کر اچھا لگتا ہے کہ ہالی وڈ کا سابقہ سپر ہیرو اب بدل چکا ہے۔ وہ عروج سے نیچے آ رہا ہے اور رفتار پکڑ رہا ہے۔ وہ اپنا کیریئر الٹا لے جا رہا ہے، جیسے اپنی عمر کی گھڑی پیچھے کر رہا ہو۔

مجھے لیام نیسن اُس وقت بھی پسند تھے جب وہ انتقام لینے والے باپ اور ٹھکرائے گئے قاتلوں کا کردار ادا کر رہے تھے، مگر زیادہ تر وہ بس رسم پوری کر رہے تھے اور پرانے ہونے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اس وقت وہ بہت بڑے لگتے تھے۔ اب وہ پہلے سے کہیں زیادہ جوان اور آزاد نظر آتے ہیں۔

نیکڈ گن کی نمائش جاری ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی فلم