ہالی وڈ کے لکھاریوں کو مصنوعی ذہانت سے خطرہ؟

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چیٹ جی پی ٹی جیسے مصنوعی ذہانت پروگرام انسانوں کی طرح بات چیت کر سکتے ہیں جس کی وجہ سے کچھ لوگ پریشانی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔

رائٹرز گلڈ آف امریکہ کی طرف سے ہالی ووڈ، کیلیفورنیا میں نیٹ فلکس کے سامنے ہڑتال کے چوتھے دن مصنف ایرک ہیسرر نے پوسٹر تھام رکھا ہے۔(اے ایف پی)

یوں تو اس ہفتے امریکی فلمی صنعت کے مرکز ہالی وڈ میں لکھاریوں نے تنخواہ میں اضافے کے لیے ہڑتال کی لیکن ان کا غصہ اور خوف اس وقت بڑھ گیا جب نیٹ فلکس اور ڈزنی جیسے فلمی سٹوڈیوز نے اس امکان کو مسترد کرنے سے انکار کر دیا کہ مستقبل میں مصنوعی ذہانت فلمی مصنفین کی جگہ لے سکتی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چیٹ جی پی ٹی جیسے مصنوعی ذہانت پروگرام انسانوں کی طرح بات چیت کر سکتے ہیں جس کی وجہ سے کچھ لوگ پریشانی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔

وائٹ ہاؤس نے اس ہفتے بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں سے کہا ہے کہ وہ ان خدشات کے بارے میں بات کریں۔

رائٹرز گلڈ آف امریکہ بھی ایسے قوانین چاہتا ہے کہ فلم اور ٹی وی کی صنعت میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کیسے ہو گا لیکن اس ضمن میں سٹوڈیوز اور سٹریمنگ سروسز کے ساتھ ایک ہفتے تک جاری رہنے والی بات چیت کامیاب نہیں ہوئی۔

رائٹرز گلڈ آف امریکہ کے پاس فلم اور ٹی وی انڈسٹریز میں اے آئی کے استعمال کے بارے میں کچھ تجاویز تھیں۔

تنظیم کا کہنا تھا کہ اگر مصنوعی ذہانت کا پروگرام کچھ لکھتا ہے تو اسے ادبی یا اصلی مواد کے طور پر نہ لیا جائے جس کا لوگوں کو معاوضہ ملتا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ لکھاریوں کے لکھے ہوئے سکرپٹ کو مصنوعی ذہانت کے پروگرام کو سکھانے کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ تاہم سٹوڈیوز نے ان تجاویز سے اتفاق نہیں کیا۔ اس کے بجائے انہوں نے اس ٹیکنالوجی کی ترقی پر سال میں صرف ایک بار بات کرنے کی پیشکش کی۔

نیٹ فلکس کی ہِٹ فلم ’برڈ باکس‘ لکھنے والے رائٹرز گلڈ کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن ایرک ہیسرر کے بقول: ’مشین آرٹ تخلیق نہیں کر سکتی۔ آپ کہانی کے دل و جان سے محروم ہو جاتے ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ پہلا لفظ ’مصنوعی‘ کا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کچھ مصنفین کو ڈر ہے کہ ٹیکنالوجی کمپنیاں فلم اور ٹی وی کی صنعتوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں کیوں کہ وہ تجربہ کرنے اور چیزوں کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ حالاںکہ مصنفین پہلے ہی جانتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کا پروگرام کیا کام کرتا ہے اور کیا نہیں۔ لکھاری نہیں چاہتے کہ ٹیکنالوجی کمپنیاں ایسے کام کریں جس سے صنعت کو نقصان پہنچے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

احتجاج کرنے والے بعض مصنفین کا ماننا ہے کہ ان کا کام کمپیوٹر سے نہیں ہو سکتا۔ تاہم یہ ان کے لیے مایوس کن ہے کہ سٹوڈیوز اور سٹریمرز دوسری صورت میں یقین کرتے نظر آتے ہیں۔ اس سے ان لکھاریوں کی توہین ہوتی ہے جو پہلے ہی ہڑتال پر ہیں۔

کچھ مصنفین کو خوف ہے کہ ہالی ووڈ کے کرتا دھرتا انسانی مصنفین کے بجائے کمپیوٹر استعمال کرکے پیسہ بچانا چاہتے ہیں۔

مصنفین پہلے ہی سلیکون ویلی کمپنیوں کی وجہ سے صنعت میں تبدیلیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ مثلاً مختصر مدت کے معاہدے۔ انہیں خدشہ ہے کہ اگر کمپیوٹر مقبول ٹی وی شوز اور فلمیں لکھنا شروع کر دیتے ہیں تو ان کی ملازمت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

فلم پروڈیوسر ٹوڈ لیبرمن کہتے ہیں کہ ’اگلے تین سال میں آپ دیکھیں گے کہ ایک فلم مصنوعی ذہانت نے لکھی جو اچھی ہو گی۔‘

فوکس انٹرٹینمنٹ کے چیف ایگزیکٹیو افسر روب ویڈ کا کہنا تھا کہ صرف سکرپٹ ہی نہیں بلکہ ٹی وی شوز اور فلمیں بنانے سے متعلق دیگر کام بھی جو کمپیوٹر کے ذریعے کیے جا سکتے ہیں۔ اس میں ایڈیٹنگ، فلم کی کہانی اور اسٹوری بورڈ بنانے جیسے کام شامل ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’مستقبل میں مصنوعی ذہانت، ہو سکتا کہ اگلے یا اس سے اگلے سال نہیں لیکن کیا 10 سال تک نہیں؟ مصنوعی ذہانت یہ تمام کام کرنے کے قابل ہو گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی