اے آئی چشمے جو دیں ’سپر پاور‘ جیسی سماعت

سائنس دانوں نے مصنوعی ذہانت سے کام کرنے والی ایسی عینک تیار کی ہے جو اسے پہننے والوں کو غیر معمولی قوت سماعت فراہم کرتی ہے۔

17 مئی، 2013 کو سان فرانسسکو، کیلی فورنیا میں گوگل I/O ڈویلپر کانفرنس کے دوران ایک شریک کو گوگل گلاس پہنایا جا رہا ہے (اے ایف پی)

سائنس دانوں نے مصنوعی ذہانت سے کام کرنے والی ایسی عینک تیار کی ہے جو اسے پہننے والوں کو غیر معمولی قوت سماعت فراہم کرتی ہے۔

یہ عینک کیمرے سے لیس ہے جو ہونٹوں کی حرکت کو آواز کی شکل دیتی ہے۔ 

یہ سمارٹ چشمہ ان افراد کو صاف آڈیو فراہم کرتا ہے جنہیں سننے میں دشواری ہوتی ہے یا جو کسی شور والے ماحول میں ہوں۔

ہیریئٹ واٹ یونیورسٹی، ایڈنبرا، نیپیئر اور سٹرلنگ کی ٹیم نے یہ عینک بنائی ہے اور اس کی تربیت شور کے ایسے نمونوں پر کی گئی تھی جن میں واشنگ مشینیں اور ٹریفک کا شور شامل ہے۔

قوت سماعت سے محروم رائل نیشنل انسٹی ٹیوٹ کے اعداد و شمار کے مطابق محققین کو امید ہے کہ نئی سمارٹ عینک برطانیہ میں 12 لاکھ سے زیادہ ایسے بالغ افراد کی مدد کر سکتی ہے جنہیں سننے میں اتنی شدید دشواری ہوتی ہے کہ بات چیت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر متھینی سلاتھورائی نے، جن کا تعلق ایڈنبرا میں ہیریئٹ واٹ یونیورسٹی کے ساتھ ہے، کہا ’ہم سماعت میں مدد دینے والے آلات کو دوبارہ ایجاد کرنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ ہم انہیں زیادہ طاقت ور بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

’آپ صرف کیمرہ اس شخص کی طرف کرتے ہیں یا اس شخص کو دیکھتے ہیں جسے آپ سننا چاہتے ہیں۔ اگر دو لوگ ایک ساتھ بھی بات کر رہے ہوں تو مصنوعی ذہانت بصری اشاروں کا استعمال اس شخص کی آواز نکالنے کے لیے کرتی ہے جسے آپ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔‘

اس عمل کے لیے بہت زیادہ کمپیوٹر پروسیسنگ کی ضرورت ہوتی ہے جس میں صوتی ڈیٹا سویڈن میں سرورز کو بھیجا جاتا ہے۔ 

فاصلے کے باوجود، محققین کا دعویٰ ہے کہ تیز رفتار براڈ بینڈ یا فائیو جی اس کے ’فوری طور پر ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ ٹیکنالوجی بنیادی طور پر ایسے افراد کے لیے ہے جو سماعت میں مدد دینے والے آلات استعمال کرتے ہیں اور بینائی کی کمزوری کا شکار ہیں۔ 

تاہم یہ ٹیکنالوجی اتنی عام ہے کہ اسے تیل نکالنے کے پلیٹ فارمز یا ہجوم والی جگہوں جیسی شور والے مقامات پر کام کرنے والا کوئی بھی شخص استعمال کر سکتا ہے۔

پروفیسر سلاتھورائی نے کہا ’چند بڑی کمپنیاں ہی ہیں جو سماعت کے آلات بناتی ہیں اور شور والے ماحول میں ان کی معاونت محدود ہو جاتی ہے۔‘

’ہم اس رکاوٹ کو توڑنا اور مزید لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ خاص طور پر بچوں اور معمر افراد کی، تاکہ وہ سستے اور مصنوعات ذہانت کی مدد سے کام کرنے والے سماعت کے آلات تک رسائی حاصل کر سکیں۔‘

محققین سماعت میں مدد دینے والے آلات بنانے والی کمپنیوں کے ساتھ پہلے ہی بات چیت کر رہے ہیں اور انہیں 2026 تک عینک کا قابل استعمال ورژن تیار کرنے کی امید ہے۔

وہ کلاؤڈ پر مبنی ماڈل کو بھی عوام کے لیے پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ کوئی بھی ہم آہنگ ڈیوائس رکھنے والا شخص اس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا سکے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی