نو مئی ’غلط‘ قرار دینے کا بیان اور پھر ’وضاحت‘: کیا پی ٹی آئی میں اختلافات ہیں؟

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی کی قیادت ’احتجاجی سیاست‘ سے تھک چکی ہے اور درمیان کا راستہ نکالنا چاہتی ہے، لیکن بانی چیئرمین اس میں ’رکاوٹ‘ ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان اڈیالہ جیل کے باہر 15 فروری، 2024 کو میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں جبکہ ان کے بائیں ہاتھ پر وکیل سلمان اکرم راجہ موجود ہیں (روئٹرز)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کی جانب سے ’نو مئی کو غلط‘ قرار دینے کے بیان سے سیاسی حلقوں میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ شاید پی ٹی آئی معذرت خواہ ہے، تاہم پارٹی کے سیکریٹری جنرل نے اسے ’حقائق کے برعکس‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کا موقف آج بھی وہی ہے جو بانی چیئرمین عمران خان نے ہمیشہ پیش کیا ہے۔

نو مئی 2023 کو اپنے بانی چیئرمین عمران خان کی اسلام آباد سے گرفتاری پر پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاج کے دوران ملک کے مختلف شہروں میں پرتشدد واقعات رونما ہوئے تھے، جس کے بعد پی ٹی آئی قیادت اور رہنماؤں سمیت سینکڑوں کارکنوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔

سب سے زیادہ مقدمات پاکستان کی مختلف چھاؤنیوں میں توڑ پھوڑ کے درج ہوئے جبکہ 102ملزمان کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جانے کے بعد فیصلے سنائے جا چکے ہیں۔

حالیہ ہفتوں میں ملک کے مختلف شہروں میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں نے نو مئی کے واقعات میں ملوث ہونے پر تحریک انصاف کے متعدد قانون سازوں اور درجنوں عہدیداروں کو سزائیں بھی سنائی ہیں۔

31 جولائی کو فیصل آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے نو مئی 2023 کو جلاؤ گھیراؤ کے مقدمات میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما عمر ایوب، سینیٹر شبلی فراز اور زرتاج گل سمیت 108 ملزمان کو قید کی سزا سنائے جانے کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ یہ ’اس ملک میں قانون کی حکمرانی اور عملدرآمد کی جیت کا دن ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا تھا کہ جس طریقے سے نو مئی کے حملے اور جلاؤ گھیراؤ کیا گیا، اس کے ناقابلِ تردید ثبوت موجود ہیں اور اس حوالے سے شفاف ٹرائل کیا گیا۔

اسی دوران چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان نے 20 اگست کو میڈیا کو دیے گئے اپنے بیان میں کہا: ’ہم فرشتے نہیں تھے، ہم سے غلطیاں ہوئی ہوں گی، نو مئی غلط تھا، نہیں ہونا چاہیے تھا، آئندہ بھی نہ ہو۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’عمران خان نے اور ہم سب نے اس کی مخالفت کی اور استدعا کی کہ شفاف تحقیقات کریں، قانون کے مطابق ٹرائل کریں۔‘

بیرسٹر گوہر کے اس بیان کے بعد پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے ایکس پر ایک پوسٹ میں وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے: ’پاکستان تحریک انصاف یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتی ہے کہ بیرسٹر گوہر علی خان کے جن بیانات کو میڈیا میں پارٹی موقف کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، وہ دراصل حقائق کے برعکس اور توڑ مروڑ کر پیش کیے گئے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’یہ بات واضح کی جاتی ہے کہ پارٹی کی جانب سے کسی قسم کا سرکاری بیان یا معذرت نامہ جاری نہیں کیا گیا۔ تحریک انصاف کا موقف آج بھی وہی ہے جو چیئرمین عمران خان نے ہمیشہ پیش کیا ہے۔‘

بقول شیخ وقاص اکرم: ’ہم یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ جو تاثر دیا جا رہا ہے کہ پارٹی نے کسی قسم کی معذرت کی ہے یا کسی دباؤ کے تحت یہ قدم اٹھایا ہے۔ یہ سراسر غلط اور گمراہ کن ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ رکھتی ہے۔‘

 

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’ہم اپنے موقف پر قائم ہیں کہ یہ ایک ’فالس فلیگ آپریشن‘ تھا، جس کا مقصد  عوام کو گمراہ کرنا اور پارٹی کے خلاف پروپیگنڈا کرنا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف قوم کو یقین دلاتی ہے کہ ہمارا بیانیہ، ہمارا موقف اور ہماری جدوجہد عمران خان کے نظریے اور موقف کے عین مطابق ہے۔‘

اپنی ایک اور پوسٹ میں شیخ وقاص نے لکھا: ’پاکستان تحریک انصاف کے قائم مقام چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے پارٹی موقف پیش کرتے ہوئے میڈیا سے گفتگو میں واضح کیا کہ نو مئی مقدمات میں پارٹی رہنماؤں اور ورکرز کو جعلی سزائیں دی جا رہی ہیں۔ نو مئی ایک سانحہ تھا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ عمران خان نے ہمیشہ اس کی مذمت کی۔ جو ہوگیا اس کو چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہیے اور بے گناہ افراد کو انصاف فراہم کیا جائے۔‘

انہوں نے مزید لکھا: ’میڈیا میں اس بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جانا افسوس ناک ہے۔ ہر پاکستانی کا یہی مطالبہ ہے کہ انصاف فراہم کیا جائے۔‘

پارٹی چیئرمین کے بیان اور سیکریٹری جنرل کی وضاحت سے یہ قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ شاید پی ٹی آئی میں کوئی اختلافات چل رہے ہیں، اس سلسلے میں موقف کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے بیرون ملک مقیم رہنما زلفی بخاری سے رابطہ کیا گیا، جنہوں نے ’اختلافات‘ کے حوالے سے تو کچھ نہیں کہا، تاہم ان کا کہنا تھا: ’تحریک انصاف کے ہر رہنما نے نو مئی کے حملوں کی مذمت کی ہے، لیکن ساتھ ہی ہم نے ایک آزاد عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ ملک دیکھ سکے کہ اصل مجرم کون ہیں۔‘

زلفی بخاری کا مزید کہنا تھا کہ ’جھوٹا بیانیہ بنانا اور بے گناہ لوگوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا ایک بہت ہی قلیل مدتی فائدہ ہے۔‘

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف میں اس وقت تقسیم دکھائی دیتی ہے اور کچھ پارٹی رہنماؤں کے بیانات دیگر قیادت کے لیے مسائل پیدا کر دیتے ہیں۔ حال ہی میں پارٹی رہنما اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے لاہور میں ’آر یا پار تحریک‘ کا اعلان کیا، لیکن بیشتر پارٹی قیادت اس اعلان کے بارے میں لاعلم تھی۔

سیاسی تجزیہ کار ماجد نظامی سمجھتے ہیں کہ پارٹی قیادت ’احتجاجی سیاست‘ سے تھک چکی ہے اور درمیان کا راستہ نکالنا چاہتی ہے، لیکن بانی چیئرمین اس میں ’رکاوٹ‘ ہیں۔

انڈپینڈںٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’میری رائے میں تحریک انصاف احتجاجی سیاست سے تھک چکی ہے اور چونکہ تحریک انصاف میں پہلے سے بہت سے گروپس بنے ہوئے ہیں، جو عمران خان اور مرکزی قیادت کے جیل جانے کے بعد وجود میں آئے، اس لیے ان کے اندر اختیارات اور عوام میں پذیرائی کے لیے کھینچا تانی چلتی رہتی ہے۔

’پھر اسی طرح خیبرپختونخوا حکومت، وہاں کی تنظیم، اسی طرح پارلیمانی پارٹی اور وہ لوگ جو انتخاب نہیں جیت پائے، لیکن تحریک انصاف کی مرکزی قیادت میں شامل ہیں، ان سب کے اندر حکمت عملی کے اختلافات موجود ہیں، اس میں کوئی شک نہیں اور گاہے بگاہے اس کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔‘

ماجد نظامی کے مطابق: ’اب چونکہ معاملات اس نہج پر آ گئے ہیں کہ تحریک انصاف کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ احتجاج سے انہیں کچھ نہیں ملنا بلکہ مزید نقصان ہوگا اس لیے پھر یہ بات کی جاتی ہے کہ کوئی بیچ کا راستہ نکالا جائے لیکن اس میں آخری رکاوٹ عمران خان ہوتے ہیں کیونکہ ان کی جانب سے کوئی گرین سگنل نہیں دیا جاتا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’میں سمجھتا ہوں کہ آنے والے دنوں میں یہ معاملہ ایسے ہی چلے گا کیونکہ ابھی تک تو ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کی کوئی چیز نظر نہیں آ رہی۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ جمعرات کو سپریم کورٹ سے (نو مئی مقدمات میں) مختلف ضمانتیں ہوئی ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ عملاً کہیں اور بھی عمران خان کی رہائی یا کہیں اور نظر بندی کی کوئی بات چل رہی ہے یا نہیں۔‘

ماجد نظامی کے مطابق: ’چونکہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور یہاں ادارے مستحکم نہیں ہیں اس لیے کسی بھی سیاست دان کا جیل سے باہر آنا محض عدالتی کارروائی کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ اس میں اور  بھی بہت سے عناصر ہوتے ہیں اور اگر تحریک انصاف کی قیادت ان عناصر پر کام کرے گی تب ہی عمران خان جیل سے باہر آ سکتے ہیں لیکن اگر اسی طرح اختلافات چلتے رہیں گے، کھینچا تانی ہوتی رہے گی تو شاید ان عناصر پر کام کرنا بھی ممکن نہ ہو۔‘

 دوسری جانب سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی میں اکثریت نو مئی کے اثرات سے نکلنا چاہتی ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’پی ٹی آئی نو مئی کے بعد سے اندرونی بحران سے دوچار ہے۔ اس سے پہلے بھی ان کی پارٹی کی قیادت یہ کہتی رہی ہے کہ نو مئی کے حوالے سے ہمیں ٹریپ کیا گیا لیکن یہ نہیں بتاتے کہ ٹریپ کس نے اور کیوں کیا۔‘

بقول سلمان غنی: ’میں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ انہیں نو مئی کے اثرات سے نکلنا چاہیے اور بیرسٹر گوہر تو ہمیشہ آئین، قانون اور ریاست کی بات کرتے دکھائی دیے ہیں، ان کا رویہ بہت سیاسی ہے۔ یہ سب وہ لوگ ہیں، جو چاہتے ہیں کہ انہیں اس نو مئی کی کیفیت سے باہر آنا چاہیے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ ون مین پارٹی ہے اور اس میں ہو گا وہی جو عمران خان چاہیں گے اور وہ اٹکے ہوئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس حوالے سے معافی کا عمل خود کو قصور وار ثابت کرنا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ نو مئی کے واقعے کے فوری بعد عمران خان نے کہا تھا کہ اگر دوبارہ اس طرح کی بات ہو گی تو ہم دوبارہ اس طرح کا رد عمل دیں گے۔

’پی ٹی آئی نو مئی کے واقعات سے اپنا پلہ نہیں چھڑوا پائی اور اگر دیکھا جائے تو نو مئی کے واقعات سے صرف پی ٹی آئی متاثر نہیں ہوئی بلکہ پاکستان کی تمام سیاسی طاقتیں دفاعی محاذ پر کھڑی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان خود اپنی پارٹی کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنے ہوئے ہیں اور پارٹی اس صورت حال سے نکل نہیں پا رہی جبکہ بیرسٹر گوہر جیسے کچھ لوگ ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اس صورت حال سے نجات حاصل کرنی چاہیے، یہی وجہ ہے کہ بیرسٹر گوہر نے نو مئی کے واقعات پر ندامت کا اظہار کیا۔

’وہیں انہوں نے کہا کہ اسے چھوڑا جائے اور آگے بڑھا جائے لیکن لگتا یہی ہے کہ عمران خان یہ سیاسی طرز عمل اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ ضد پر کھڑے ہیں اور ان کی اس ضد کا نقصان حکومت کو نہیں بلکہ خود ان کی جماعت اور اس کی مقبولیت کو ہی ہو رہا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست