پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی کال پر پانچ اگست کو ملک گیر احتجاج کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، تاہم نومئی مقدمات میں پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کو عدالتوں سے سزاؤں کے باعث اس احتجاج کی اثر پذیری پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
عدالتی فیصلوں کے بعد خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پارٹی کی موجودہ قیادت، جسے مرکزی رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد سامنے لایا گیا، وہ بھی گرفتاریوں کی زد میں آ سکتی ہے۔ اس صورتحال میں مؤثر احتجاج کے امکانات کم دکھائی دے رہے ہیں۔
البتہ تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے اپنے بیان میں اعلان کیا ہے کہ ’ہم اپنے قائد کی کال پر پورے ملک میں احتجاج ضرور کریں گے۔ لیکن یہ احتجاج صرف ایک دن کا ہو گا،کارکنوں کو اپنے شہروں میں پرامن احتجاج کی کال دی ہے۔‘
جنرل سیکرٹری پی ٹی آئی سلمان اکرم راجہ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’ہمارے رہنماؤں اور کارکنوں کو گذشتہ کئی دنوں سے چھاپے مار کر گرفتار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن ہم پر امن احتجاج کریں گے البتہ انتشار یا توڑ پھوڑ کی اجازت نہیں ہو گی۔‘
پی ٹی آئی لاہور کے صدر شیخ امتیاز نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’عدالتوں سے نو مئی کے فیصلوں کے بعد ہمارے رہنماؤں اور کارکنوں کو محفوظ مقام پر رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ میں بھی اپنے گھر پر نہیں رہ رہا کہیں اور منتقل ہو گیا ہوں۔ اسی طرح ہمارے دیگر رہنما اور کارکن بھی پانچ اگست کو نکل کر احتجاج کریں گے۔ گرفتاریاں ہمارا راستہ نہیں روک سکتی۔‘
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ’تحریک انصاف کی قیادت نے پانچ اگست کی کال بے بسی میں دی ہے تاکہ ان سے مذاکرات کا دروازہ کھل سکے۔ نومئی کیسوں میں نامزد کئی رہنما خیبر پختونخواہ میں چلے گئے ہیں۔ پی ٹی آئی پہلے مرکزی طور پر احتجاج کرتی رہی اب اپنے شہروں میں احتجاج صرف علامتی ہوگا جس کا کوئی اثر دکھائی نہیں دے رہا۔‘
تجزیہ کار وجاہت مسعود نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’تحریک انصاف کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی۔ اس لیے ماضی میں ان کے احتجاج حکومت وقت کے لیے کافی پریشان ہوا کرتے تھے۔ لیکن جب سے ان کا اقتدار ختم ہوا اب وہ صورتحال نہیں رہی۔ لہذا جس طرح پہلے مسلم لیگ ق یا کئی اور اسٹیبلشمنٹ کے گملے سے اگنے والی جماعتیں عروج کے بعد زوال پذیر ہوئیں اس جماعت کے حالات بھی کچھ ایسے بنتے جا رہے ہیں۔‘
’پی ٹی آئی کے احتجاج سے حکومت یا کسی ادارے کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن ایک بات ضرور ہے لوگوں میں موجودہ حکومت کے خلاف بھی بے چینی پائی جاتی ہے۔ ان کے پاس بھی کوئی عوامی مسائل حل کرنے کے لیے روڈ میپ یا مستقبل کا کوئی قابل ذکر منصوبہ دکھائی نہیں دیتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تجزیہ کار سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سیاسی جماعتیں سیاست کے ذریعے راستے نکالتی ہیں لیکن بانی پی ٹی آئی نے لڑائی کو جو راستہ اختیار کیا ہے وہ انہیں اور ان کی پارٹی کو مسلسل کمزور کر رہا ہے۔ مذاکرات کی بجائے اب بھی وہ سٹریٹ پاور کے ذریعے دباو ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا یہ فارمولا پہلے کامیاب ہوا اور نہ ہی اب اس میں کوئی جان دکھائی دیتی ہے۔‘
’جہاں تک عمران خان کے بیٹوں کی پاکستان آمد کا تعلق ہے تو نہ ان کی والدہ جمائما خان نہ ہی عمران خان چاہتے ہیں کہ وہ کسی سیاسی تحریک کا حصہ بنیں۔ یہ علیمہ خان کی خواہش ضرور ہوسکتی ہے مگر معلومات کی بنیاد پر کہ رہا ہوں وہ پاکستان اگر آئے تو کنٹینر پر نہیں چڑھیں گے بلکہ اپنے والد سے جیل میں ملاقات کے لیے آئیں گے۔‘
سلمان کے بقول، ’جب عمران خان نے جب پانچ اگست کو احتجاج کی کال دی تھی تب نومئی کیسوں فیصلے نہیں آئے تھے۔ لہذا اب احتجاجی تحریک میں جان پڑنے کی بجائے پارٹی کے اندر بھی کوئی جوش دکھائی نہیں دے رہا۔ فیصلوں کے بعد یہ وقت احتجاج کا نہیں رہا بلکہ مذاکرات کے لیے راہ ہموار کرنے کا ہے۔ کیونکہ جب بھی ماضی میں انہوں نے احتجاج کیا تو تھپکی حاصل ہوتی تھی اب وہ حالات نہیں رہے لہذا انہیں بھی پالیسی تبدیل کرنا ہوگی۔‘
خیال رہے کہ تحریک انصاف پی ٹی آئی نے پانچ اگست کو لاہور میں مینار پاکستان جبکہ اسلام آباد کے ایف 9 میں جلسہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر لاہور اور ڈی سی اسلام اباد کو باضابطہ درخواست دے رکھی ہے لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔