کیا پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت 10ارب ڈالر تک پہنچنا ممکن ہے؟

امریکی پابندیوں میں پاکستان اور ایران کے درمیان کن اشیا کی تجارت ہو سکتی ہے اور کیا پاکستان ایران تجارت 10 ارب ڈالر تک لے جانا ممکن ہے بھی یا نہیں؟

وزیر اعظم شہباز شریف تین اگست 2025 کو اسلام آباد میں ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کا وزیر اعظم ہاؤس پہنچنے پر استقبال کر رہے ہیں (پی ایم او)

وزیراعظم پاکستان نے ایران کے ساتھ تجارت 10 ارب ڈالرز تک لے جانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے، لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی پابندیوں میں پاکستان اور ایران کے درمیان کن اشیا کی تجارت ہو سکتی ہے اور کیا پاکستان ایران تجارت 10 ارب ڈالر تک لے جانا ممکن ہے بھی یا نہیں؟

اس خواہش کا اظہار پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کے حالیہ دورہ اسلام آباد کے موقع پر کیا۔

اسلام آباد میں اتوار کو ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیاں کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ دونوں ممالک نے کئی دستاویزات پر دستخط کیے تاکہ انہیں عملی معاہدوں میں بدلا جا سکے اور 10 ارب ڈالر کے تجارتی ہدف کو ممکن بنایا جا سکے۔

پاکستان ایران بزنس کونسل کے چیئرمین اسفند یار خان مندوخیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس وقت پاکستان ایران تجارت تقریباً تین ارب ڈالر سے زیادہ ہے، جس میں تقریباً 70 کروڑ کی پاکستانی برآمدات ہیں اور تقریباً دو ارب 30 کروڑ ڈالرز کی درآمدات ہیں۔

’پاکستان ایران سے کیمکلز، آئل، پیٹرولیم مصنوعات، ادویات، خشک میوہ جات، تعمیراتی مٹیریل، منرلز اور مشینوں سمیت کئی اشیا درآمد کرتا ہے۔ بلکہ گودرا میں انڈے، دودھ، ڈبل روٹی، پانی اور بجلی بھی ایران سے امپورٹ کیے جاتے ہیں۔ پاکستان ایران کو پھل، گوشت، بیج، چاول، سبزیاں، اور کھلونے برآمد کرتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان ایران تجارت کا زیادہ فائدہ ایران کو ہو رہا ہے۔‘

اسفندیار خان مندوخیل کہتے ہیں کہ ’پاکستان ایران تجارت کا حجم 10 سے 20 ارب ڈالرز تک بڑھ سکتا ہے، اس کے لیے بینکنگ چینلز کی سہولت ملنا ضروری ہے۔ بینکنگ پابندیوں کے باوجود بھی محدود پیمانے تک تجارت بارٹر کی صورت میں بڑھائی جا سکتی ہے۔ 

’انڈیا، چین، وینزویلا، روس، جرمنی اور ترکی سمیت کئی ممالک ایران سے بینکنگ چینلز کے ذریعے ٹرانزیکشنز کر رہے ہیں۔ دبئی میں ایران کے بینک ’بینک صادرات ایران‘ کی برانچ ایکٹو ہے۔ رومانیہ بلغاریہ، پولینڈ، سوئٹززلینڈ، بیلجیئم اور فرانس سمیت 17 ممالک  ترکی سے انوائس سلپنگ کے ذریعے ایران سے تیل خرید رہے ہیں۔‘

ان کے خیال میں ’پاکستانی سرکار کو ہمت دکھانے کی ضرورت ہے۔ بہتر منصوبہ بندی اور لابنگ کے ذریعے امریکہ کو بینکنگ ٹرانزیکشن کے لیے منایا جا سکتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان ٹیکسٹائل، سرجیکل، کھیلوں کا سامان، چاول اور زرعی اجناس کی برآمدات میں شہرت رکھتا ہے لیکن ایران میں ان کا حجم بہت کم ہے۔ ایران نے پاکستانی ٹیکسٹائل اور چمڑے پر بھاری ٹیکسز لگا رکھے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان ایران کو ٹیکسٹائل کی وسیع رینج برآمد نہیں کر پا رہا۔ پاکستانی سرجیکل سامان اور فٹ بال براستہ جرمنی دس گنا مہنگے ہو کر ایران جاتے ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اطلاعات ہیں کہ ایران اور پاکستان کے درمیان فری ٹریڈ ایگریمنٹ ( ایف ٹی اے) سائن ہو گیا ہے۔ اس سے دستانے، جیکٹس، جرابیں، بیڈ شیٹس، تولیوں پر ٹیکس کم ہونے سے تجارت کا والیم بڑھ سکتا ہے۔ ان کے بدلے ایران سے کم قیمت پر انرجی خرید کر پیٹرولیم مصنوعات کی ادائیگی 17 ارب ڈالر سے کم کر کے 10 ارب ڈالر تک کی جا سکتی ہے۔‘

پاکستان ایران بزنس کونسل کے سابق چیئرمین نجم الحسن جاوا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ایرانی صدر کے دورے سے تجارت کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، ماس میڈیا، ایکسپورٹس، آئی ٹی، کلائمٹ کنٹرول، کلچر، ائیر سروس ایگریمنٹ، انسپکشن، ٹیسٹنگ، ٹورازم اور فائر فائٹرکے 12 معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں، لیکن وہ تو پچھلے سال بھی ایرانی صدر کے دورے پر ہوئے تھے مگر مثبت نتائج سامنے نہیں آ سکے۔ 

’گیس پائپ لائن کی تکمیل ناگزیر ہو گئی ہے۔ پچھلے 75 سالوں میں جن ممالک کے درمیان تجارت تین ارب ڈالر سے زیادہ بڑھ نہیں سکی وہ کس طرح دعویٰ کر سکتے ہیں کہ سالانہ تجارت 10 ارب ڈالرز تک لے جائیں گے۔ نہ ہی امریکی پابندیاں ہٹی ہیں اور نہ ہی پاکستانی معیشت اتنی مضبوط ہو گئی ہے کہ سرکار امریکہ کو نظرانداز کر کے ایران سے تجارت بڑھا لے۔‘

ان کے مطابق ’پاکستان ایران تجارت کا آفیشل والیم تین ارب ڈالر ہے جس کا صرف ٹیکس بارڈر پر کٹتا ہے اور ادائیگی ہنڈی یا دبئی سے ہوتی ہے۔ اگر کوئی فراڈ کر لے تو حکومت اس کی ذمہ داری نہیں لیتی۔ سات اپریل 2022 کو وفاقی منسٹری آف کامرس نے کوئٹہ چمبر آف کامرس اور زاہدان چمبر آف کامرس ایران کے درمیان بارٹر ٹریڈ کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کیا تھا۔

’اس پر عمل درآمد سے سکیورٹی اور تجارت بڑھ سکتی ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان پانچ زمینی بارڈرز سے زمینی تجارت کا معاہدہ ہوا تھا۔ ابھی تک صرف تین بارڈرز سے کام ہو رہا ہے۔ اگر مزید بارڈر کھل جائیں تو تجارت بڑھ سکتی ہے۔ اس وقت غیر رسمی تجارت رسمی تجارت سے تین گنا زیادہ ہے۔ اگر غیر رسمی تجارت کو شامل کیا جائے تو تجارت کا موجودہ حجم بھی 10 ارب ڈالر سے زیادہ ہو گا۔‘

رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین فیصل جہانگیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ان کی ایرانی صدر سے ملاقات ہوئی ہے جس کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ایران دنیا میں چاول کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے لیکن پاکستانی چاول آفیشل طریقے سے براہ راست ایران نہیں جا سکتا۔ یہ براستہ دبئی ایران جاتا ہے۔‘

فیصل جہانگیر کا کہنا ہے کہ ’سٹیٹ بینک آف پاکستان بڑی رکاوٹ ہے۔ ایران میں چاول کی غیر رسمی تجارت تقریباً 70 کروڑ ڈالرز سے بڑھ گئی ہے۔ ایرانی امپورٹ ڈیٹا کے مطابق پاکستان سے تقریباً 70 کروڑ ڈالر سے زائد کا چاول درآمد کیا جاتا ہے جبکہ پاکستانی ایکسپورٹ ڈیٹا کے مطابق ایران کو چاول کی برآمد صفر ہے۔

’سمگلنگ سے ملکی جی ڈی پی اور ڈالر ذخائر کم ہو رہے ہیں۔ جرمنی کا ویرن گولڈ بینک ایران کے ساتھ تجارت اور ادائیگیوں کے سارے معاملات طے کرتا ہے۔ سٹیٹ بینک کو ویرن گولڈ ماڈل اپنانا چاہیے۔ تاکہ تجارت بڑھ سکے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان نے ماضی میں گوادر میں ایرانی بجلی کی خریداری کے عوض چاولوں کے ساتھ فارم ای کے بغیر بارٹر کرنے کی اجازت دی تھی۔ لیکن بعدازاں فارم ای کی کلیئرنس کے نام پر کمپنیوں کو تنگ کیا گیا۔ اب کوئی کمپنی بارٹر ڈیل کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اگر سرکار فارم ای سمیت دیگر رکاوٹوں کو ختم کر دے تو ایران کو بجلی کے عوض دو ارب ڈالر سالانہ چاول بآسانی بیچے جا سکتے ہیں۔‘

کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جزل سیکریٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بینکنگ چینل نہ ہونے کی وجہ سے تقریباً سات ارب ڈالر کی ٹرانزیکشن سمگلنگ کے ذریعے ہوتی ہے۔ یہ معاملہ ایرانی صدر کی بجائے امریکی صدر کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے قانونی تجارت کے راستے کھل سکتے ہیں اور ڈالر ذخائر میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت