پاکستان، ایران کو پزشکیان کے دورے سے کیا حاصل ہوا؟

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ایران اور پاکستان کے درمیان 10 ارب ڈالر کا تجارتی حجم حاصل کرنا مشکل اور بلند ہدف ہے، خاص طور پر ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے۔

ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان اسلام آباد کے دورے کے دوران ایک پودہ لگانے کے بعد پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کے ہمراہ دعا کر رہے ہیں (پی آئی ڈی)

ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کا پاکستان کا حالیہ دو روزہ دورہ کئی لحاظ سے اہم تھا، اس دوران نہ صرف مختلف شعبوں میں مفاہمت کی یاداشتوں اور معاہدوں پر دستخط ہوئے جن سے دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف معاشی تعاون کے فروغ کی توقع ہے اور دونوں ملکوں نے باہمی تجارت کے حجم کو سالانہ 10 ارب ڈالر تک بڑھانے کے لیے فوری اقدامات پر بھی زور دیا۔ 

اسلام آباد میں اتفاق رائے کی جن یادداشتوں پر دستخط ہوئے ان میں سیاسی، اقتصادی، سائنسی اور تکنیکی شعبے شامل ہیں، جن میں میر جاوا (تفتان) سرحدی گزرگاہ کے مشترکہ استعمال پر ایک معاہدہ بھی شامل ہے۔

دونوں جانب سے روایتی طور پر دل کو گرما دینے والے سیاسی بیانات بھی سامنے آئے۔ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے بعد، صدر پزشکیان نے ایک پریس کانفرنس میں پاکستان کو ’اپنا دوسرا گھر‘ قرار دیا اور ایک بار پھر اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے دوران پاکستان کی حمایت کا شکریہ ادا کیا۔

اس کے جواب میں، شہباز شریف نے بھی انڈیا کے ساتھ حالیہ چار روزہ جنگ میں پاکستان کی حمایت پر ایران کا شکریہ ادا کیا۔

اتوار کی صبح، سرکاری استقبال کی تقریب کے دوران، مسٹر پزشکیان نے ایکس اکاؤنٹ کے اپنے پیج پر لکھا: ’اسلامی ممالک کے درمیان بھائی چارہ سیاسی تعلقات سے آگے بڑھتا ہے، کیونکہ ہم، ہمسایہ ممالک، ایک ایسے ثقافت کا حصہ ہیں جو ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ اس کی ایک واضح مثال لاہور کے عظیم شاعر علامہ اقبال کے خیالات اور شاعری ہے۔ پاکستان پہنچنے پر، میں ان کے مزار پر گیا تاکہ فاتحہ کے ساتھ ساتھ ان تعلقات کو ترقی دینے پر خاص زور دیا جا سکے۔‘

انڈیا میں بھی اس دورے کو کافی دلچسپی سے دیکھا گیا۔ ایک صارف نے لکھا کہ ایرانی صدر کا استقبال اسی ہوائی اڈے پر ہوا جسے انڈیا نے تباہ کرنے کا دعوی کیا تھا۔

10 ارب ڈالر کا تجارتی ہدف

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ایران اور پاکستان کے درمیان 10 ارب ڈالر کا تجارتی حجم حاصل کرنا مشکل اور بلند ہدف ہے، خاص طور پر ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے۔

ایران کو خاص طور پر امریکہ کی جانب سے سخت اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے، جو اس کی بین الاقوامی تجارت میں مشغول ہونے کی صلاحیت کو محدود کرتی ہیں۔ اس سے ایران کی عالمی منڈیوں اور مالیاتی نظام تک رسائی محدود ہوتی ہے اور پاکستان جیسے ممالک کے لیے اس کے ساتھ تجارت کرنا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔

یہ پابندیاں بینکنگ ٹرانزیکشنز کو پیچیدہ بناتی ہیں، جس سے ایرانی کاروباروں کے لیے پاکستان اور دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ تجارتی مالیات اور کرنسی کے تبادلے کے عمل میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔

یہ پابندیاں مختلف شعبوں کو متاثر کرتی ہیں، جس سے ایران کیا برآمد یا درآمد کر سکتا ہے یا نہیں تہران کی صلاحیت محدود ہو جاتی ہے۔ یہ پہلو ایران اور پاکستان کے درمیان تجارت کو محدود کر سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

20 مارچ 2025 تک دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ایران کی پاکستان کو برآمدات تقریباً 2.4 ارب ڈالر غیر تیل اشیا پر مشتمل ہے۔ دوسری طرف، پاکستان کی ایران کو برآمدات اس سے کہیں کم ہیں، جو 2024 میں تقریباً 73.45 ہزار ڈالر کے قریب تھیں۔

اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان غیر رسمی تجارت کافی زیادہ ہے اور اس کا تخمینہ سالانہ تقریباً 10 ارب ڈالر ہے۔ یہ تجارت اکثر تیسرے ممالک کے ذریعے ہوتی ہے اور لاگت کے بڑھنے جیسے عوامل اور ایران پر پابندیوں کے اثرات سے متاثر ہوتی ہے۔ اگر اس تجارت کے اس حصے کو قانونی حیثیت دینے کا ارادہ ہے تو یہ واضح نہیں کہ یہ کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

مشترکہ سرحدی منڈیاں ایک ایسا راستہ ہیں جس پر دونوں جانب سے بہت بات کی گئی ہے لیکن پیش رفت سست رہی ہے۔ پاکستان کے وفاقی وزیر برائے تجارت جام کمال نے دورے کے دوران 30 جولائی کو مند-پشین مشترکہ سرحدی مارکیٹ کی حالیہ بحالی کو علاقائی اقتصادی انضمام کے لیے ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔ تاہم، انہوں نے ایران سے مزید دو مشترکہ سرحدی مارکیٹوں، چاہگی-کوہک اور گبد-ریمدان کے آغاز کے لیے جلدی کرنے کا مطالبہ کیا، جو سرحدی کمیونٹیز کی خوشحالی کے لیے اہم سمجھی جاتی ہیں۔

ایران کے فری اینڈ سپیشل ایکونامک زون کی اعلی کمیٹی کے سیکریٹری اور پاکستان کے وزیر تجارت کے مابین طے شدہ منصوبے کے تحت آئندہ دو ہفتوں کے دوران پاکستان کی حکومت کا ایک وفد ریمدان سرحدی گزرگاہ کا معائنہ کرکے علاقے کی صورت حال، معاشی ترقی کے مواقع اور تعاون کے طریقہ کار کا جائزہ لے گا۔

اس کے بعدمشترکہ فری زون کے انتظام، ٹیکس اور کسٹم میں چھوٹ کے طریقہ کار اور ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے مناسب مواقع اور ضروری تنصیبات کی فراہمی پر گفتگو ہوگی۔

پاکستان نے پاکستان-ایران آزاد تجارتی معاہدے (FTA) کی تکمیل کا اعلان بھی کیا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ یہ تجارت کو بڑھانے کے لیے ایک منظم ڈھانچہ فراہم کرے گا۔

دونوں اسلامی ممالک کے لیے ایک اور چیلنج خطے میں سیاسی اور سکیورٹی کے مسائل ہیں۔ دونوں ممالک کی سیاسی صورت حال ایک ایسی مستقل چیز ہے جو بہت کم بدلتی ہے۔ خاص طور پر پاکستان کے لیے، جو اپنے ملک میں کئی سکیورٹی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، جیسے کہ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (BLA) اور تحریک طالبان پاکستان (TTP)۔ بلوچستان سے ایران جانے والے راستوں پر کئی دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں، خاص طور پر شیعہ زائرین اور مزدوروں پر۔

البتہ پاکستان کی کاروباری برادری نے اپنے ابتدائی ردعمل میں اس عزم کی فوری تعریف کی۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (FPCCI) کے سابق صدر میاں انجم نثار نے اخبار بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ 10 ارب ڈالر کی سالانہ تجارتی ہدف کا اعلان علاقائی اقتصادی تعاون کے لیے درست سمت میں ایک قدم ہے۔تاہم، انہوں نے خبردار کیا کہ ایسے اہداف صرف کاغذ پر رہ جائیں گے جب تک دونوں ممالک پرانے تجارتی رکاوٹوں کو دور کرنے، زمین پر عملی اقدامات کرنے، اور سب سے اہم، ایران-پاکستان گیس پائپ لائن کے منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے تیز رفتاری نہ دکھائیں، جو پہلے ہی کئی سالوں کی تاخیر کا شکار ہو چکے ہیں۔

ان تمام چیلنجز کے باوجود، کئی مواقع بھی ہیں۔ ایران کے تیل اور گیس کے وسائل توانائی کی تجارت کے لیے اہم مواقع پیش کرتے ہیں، جو مجموعی تجارتی حجم میں نمایاں اضافہ کر سکتے ہیں۔ دونوں ممالک علاقائی تجارتی اقدامات یا اقتصادی راہداریوں میں شرکت کے مواقع تلاش کر سکتے ہیں جو تجارتی تعلقات کو بڑھا سکتے ہیں۔

پاکستان نے ایران کے ساتھ اس کے 22 ویں مشترکہ اقتصادی کمیشن کے جلد بلانے کا مطالبہ کیا ہے، جس کے جلد انعقاد سے ان فیصلوں پر عمل درآمد میں تیزی آسکتی ہے۔ تاہم اس اجلاس کے لیے کوئی تاریخ نہیں دی گئی ہے۔

فی الحال 10 ارب ڈالر کے تجارتی حجم کو حاصل کرنا ایک بڑا چیلنج ہے جو موجودہ پابندیوں کے پیش نظر تاہم ناممکن نہیں ہے۔ کامیابی سٹریٹجک شراکت داریوں، پابندیوں پر قابو پانے کے لیے مؤثر مذاکرات اور دونوں جانب سے تجارتی تعلقات کو بڑھانے کے عزم پر منحصر ہوگی۔ ماہرین کے مطابق جاری سفارتی کوششیں اور علاقائی تعاون ان رکاوٹوں کو دور کرنے میں اہم ہوں گے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ