پاکستان اور امریکہ کے درمیان ٹیرف ڈیل تقریباً مکمل ہو چکی ہے، جس کے کچھ نکات سامنے آ گئے ہیں۔
اس ڈیل میں پاکستان کی امریکہ کو برآمدات پر 19 فیصد ٹیرف لگایا گیا ہے، جو پہلے 9.8 فیصد تھا، یعنی 9.2 فیصد اضافی ٹیرف لگایا گیا ہے۔
پاکستان 15 فیصد ٹیرف کے لیے کوشش کر رہا تھا لیکن معاملات 19 فیصد پر طے پائے ہیں۔
اگرچہ 29 فیصد سے 19 فیصد تک کمی ایک بڑی کامیابی ہے لیکن اس کے بدلے پاکستان امریکہ کو کیا دے رہا ہے، یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ سے ٹیرف ڈیل سے پاکستان کی برآمدات بڑھ سکیں گی یا نہیں؟
پاکستان میں ایک ٹیکسٹائل کمپنی کے مالک ہارون نے، جو امریکہ، یورپ اور چین کو ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرتے ہیں، بتایا کہ برآمدات بڑھنے کا انحصار دیگر ممالک سے ٹیرف ڈیل پر ہے۔
ان کا کہنا تھا ’پاکستان نے امریکہ کے ساتھ اچھی ڈیل سائن کی ہے، اس سے پاکستانی برآمدات بڑھ سکتی ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کو سب سے زیادہ خطرہ بنگلہ دیش سے تھا، جس کا ٹیرف 20 فیصد اور پاکستان کا 19 فیصد ہے۔
’یہ فرق معمولی ہے۔ دونوں کی مصنوعات ایک جیسی ہیں۔ بنگلہ دیش امریکہ میں براہ راست برآمدات نہیں کر رہا تھا بلکہ اس نے کینیڈا کے ساتھ زیرو ریٹ کا معاہدہ کر رکھا ہے۔‘
ہارون نے مزید بتایا ’بنگالی کمپنیاں کینیڈا میں زیرو ریٹ پر مال بھجوا رہی تھیں اور پھر کینیڈا سے امریکہ مال بھیجا جاتا تھا۔
’پہلے امریکہ اور کینیڈا کے درمیان فری ٹریڈ ایگریمنٹ تھا، جس کا فائدہ بنگالی ٹیکسٹائل کو ہو رہا تھا۔ اب کینیڈا پر 35 فیصد ٹیرف لاگو ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے بنگلہ دیش کینیڈا کے ذریعے امریکہ میں فری ٹریڈ نہیں کر سکے گا۔
’اسی طرح چین کا ٹیرف بھی پاکستان سے زیادہ ہو سکتا ہے۔ ویتنام اور کمبوڈیا کا ٹیرف بھی پاکستان کے قریب ہے، لیکن وہ فیشن ٹیکسٹائل میں ڈیل کرتے ہیں۔
’پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات مختلف ہیں۔ امریکہ کی مارکیٹ میں جگہ بن رہی ہے اور پاکستان اس سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’انڈیا اب بھی پاکستان کے لیے رکاوٹ بن سکتا ہے۔ انڈین حکومت اپنے ٹیکسٹائل سیکٹر کو تقریباً چھ سے آٹھ فیصد سبسڈی دیتی ہے۔
’اس لحاظ سے 25 فیصد ٹیرف لگنے کے بعد بھی انڈین ایکسپورٹر کو 17 سے 19 فیصد ٹیرف پڑے گا، جو پاکستان سے کم ہے۔
’پاکستان صرف 1.5 فیصد سبسڈی دے رہا ہے، لیکن یہ اندرونی معلومات ہیں۔ امریکہ میں بڑے ٹیکسٹائل گروپس شاید اس حقیقت سے آگاہ ہوں، لیکن چھوٹے گروپس اتنی تفصیل میں نہیں جاتے۔
’ممکن ہے کہ اکثریت کلائنٹس یہی سوچ کر انڈیا سے رابطہ نہ کریں کہ وہاں تو ریٹ 25 فیصد ہے اور پاکستان کا ریٹ 19 فیصد ہے اور زیادہ آرڈر پاکستان کو مل جائیں۔‘
تاہم سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ سمجھتے ہیں کہ اس ڈیل سے پاکستانی برآمدات کو زیادہ فائدہ پہنچنے کی امید کم ہے اور اس کے لیے اسلام آباد کو ٹیکسٹائل کے شعبے میں اقدامات کرنے ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’9.2 فیصد کا یکمشت اضافہ بہت زیادہ ہے، اس ڈیل سے پاکستانی برآمدات کو زیادہ فائدہ پہنچنے کی امید کم ہے۔ پاکستان نے ہمسایہ ممالک کی نسبت بہتر ڈیل حاصل کی ہے، لیکن ترکی اور مصر کی نسبت اچھی ڈیل نہیں لے سکے۔‘
ڈاکٹر سلیمان شاہ کے مطابق ’انڈیا پر 25 فیصد، بنگلہ دیش، ویتنام پر 20 فیصد، ترکی اور مصر پر 15 فیصد ٹیرف لگا ہے۔
’اگر پاکستان نے ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے بجلی کی قیمت اور شرح سود میں کمی نہ کی تو ٹیرف ڈیل کے مطلوبہ فوائد حاصل ہونا مشکل ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’انڈیا کو زیادہ ٹیرف دینے کا فائدہ پاکستان کی بجائے ترکی، مصر، بنگلہ دیش اور ویتنام کو ہو سکتا ہے۔‘
وزارت تجارت میں ای کامرس کی سیکٹوریل کونسل کے چیئرمین خرم راحت نے بتایا کہ ’بیرون ممالک سے ڈیجیٹل آرڈر گڈز اور سروسز پر پانچ فیصد ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے جو امریکہ کے ساتھ ٹیرف ڈیل کا حصہ ہے، لیکن یہ آئی ایم ایف شرائط کی خلاف ورزی ہے۔
’اس سے گوگل، فیس بک، یوٹیوب اور ایمزون سمیت کئی امریکی کمپنیوں کو فائدہ ہو گا اور پاکستانی صارف بھی اس چھوٹ سے مستفید ہوں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان فری لانسنگ ایکسپورٹس میں چوتھے نمبر پر ہے۔ اگر یہ ٹیکس ختم نہ ہوتا تو ای کامرس بزنس ملک سے باہر منتقل ہونے سے برآمدات کم ہو سکتی تھیں۔
’فری لانسنگ میں پاکستان کا مقابلہ، انڈیا اور بنگلہ دیش سے ہے۔ اگر پاکستان پانچ فیصد ٹیکس ختم نہ کرتا تو آن لائن ٹریڈ اور سروس میں 9.2 فیصد کا اضافی امریکی ٹیرف کم ہو کر صرف 4.2 فیصد ہو سکتا تھا۔‘
لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینیئر نائب صدر خالد عثمان سمجھتے ہیں کہ ’پاکستان کی امریکہ میں برآمدات بڑھنے کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ دیگر ممالک کو کیا ٹیرف آفر کرتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر امریکی درآمدات پر زیرو ٹیکس کر دیا جائے تو تقریباً 20 کروڑ ڈالرز کا ٹیکس کم اکٹھا ہو گا۔ اگر فری ٹریڈ ایگریمنٹ ہو جاتا تو پاکستان کی امریکہ کو برآمدات 12 ارب ڈالر تک بڑھ سکتی تھیں۔
’موجودہ ڈیل میں شاید ایک ارب ڈالر کا اضافہ ممکن ہو سکے کیونکہ پاکستان میں ٹیکسٹائل کی صلاحیت محدود ہے۔‘
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی امریکہ سے ٹیرف ڈیل خطے میں سب سے بہتر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کی کل برآمدات 36 ارب ڈالر ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کی تجارت کا حجم تقریباً سات ارب ڈالر ہے اور ٹریڈ اکاؤنٹ تقریباً پانچ ارب ڈالرز سے سرپلس ہے، جس سے کرنٹ اکاؤنٹ پر مثبت اثرات آتے ہیں۔‘
ظفر پراچہ کے مطابق ’پاکستان کی نئی ٹیرف ڈیل خطے میں سب سے بہتر ہے، جس کا سائیکولوجیکل اثر بہت زیادہ ہے۔
’ایک ماحول بن سکتا ہے اور امریکہ کے ساتھ دیگر ممالک بھی پاکستان سے تجارت بڑھا سکتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں پاکستانی برآمدات مزید بڑھ سکتی ہیں اور روپیہ مضبوط ہوسکتا ہے۔‘
اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے سابق رکن محمد عارف نے اس ڈیل سے جڑے تیل کی تلاش کے امکان کے حوالے سے کہا ’پاکستان اور امریکہ ٹیرف ڈیل میں تیل کی تلاش بہت سے اگر اور مگر سے جڑی ہے، لیکن امریکہ اگر خام تیل سستا دے تو اسے درآمد کر کے ریفائن کیا جا سکتا ہے اور اسے برآمد بھی کیا جا سکتا ہے، جس سے ملکی برآمدات بڑھ سکتی ہیں۔‘