گذشتہ روز پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی شیخ وقاص اکرم کی ایوان سے مسلسل غیر حاضر رہنے پر ان کی رکنیت ختم کرنے کی تحریک پیش کر دی گئی۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے رولنگ دی کہ اگر کوئی رکنِ پارلیمان 40 دن تک مسلسل غیر حاضر رہے تو اس کی رکنیت منسوخ کی جا سکتی ہے۔
اس کے برخلاف وقاص اکرم سے منسوب ایک بیان کے مطابق انہوں نے کئی بار سپیکر کو چھٹی کی درخواست دی تھی۔
پاکستان کی قومی اسمبلی میں عوامی نمائندوں کی حاضری کے اعداد و شمار اگر قوم کے سامنے رکھے جائیں تو سوال صرف شیخ وقاص اکرم کی نااہلی کی تحریک پر نہیں بلکہ پورے نظام کی ساکھ پر اٹھتا ہے۔ اگر غیر حاضری ہی کو پیمانہ بنایا جائے، تو آدھی اسمبلی کو ایوان سے باہر ہونا چاہیے۔
2025 میں قومی اسمبلی کے کم از کم تین سیشنز یعنی مارچ، مئی اور جون کے دوران 75 سے 86 فیصد ارکان نے کم از کم ایک اجلاس میں غیر حاضری کی، جن میں زیادہ تر نے رخصت کی درخواست بھی جمع نہیں کروائی۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافین) کی رپورٹس کے مطابق:
- مارچ میں 177 اراکین بغیر رخصت غیر حاضر رہے
- مئی میں 150 اراکین نے یہی روش اپنائی
- جون میں 156 اراکین نے بغیر اطلاع کے حاضری نہیں دی۔
جب قانون ساز ادارے میں یہی غیر ذمہ داری ایک معمول بن جائے، تو صرف ایک فرد پر انگلی اٹھانا محض انصاف کا قتل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شیخ وقاص اکرم نہ صرف تجربہ کار پارلیمنٹرین ہیں بلکہ کئی مرتبہ وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔ اگر ان پر آئینِ پاکستان کی شق 64 (2) کے تحت کارروائی ہونی ہے، تو سوال ہے کہ کیا اسی آئینی شق کے مطابق ان دوسرے ارکان کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیے جنہوں نے مہینوں اسمبلی کا رخ نہیں کیا؟ کیا آئین کی یہ شق صرف شیخ وقاص پر ہی لاگو ہوتی ہے؟
آئینِ پاکستان کی شق 64(2): کہتی ہے: ’اگر کوئی رکن مسلسل 40 اجلاسوں سے غیر حاضر رہے اور ایوان نے اس غیر حاضری کی منظوری نہ دی ہو، تو سپیکر کو اختیار ہے کہ وہ اس کی نشست خالی قرار دے دے۔‘
یہ شق سپیکر کی صوابدید سے مشروط ہے، یعنی اگر سپیکر چاہے تو ہی یہ کارروائی ہو سکتی ہے، اور منظوری اسمبلی سے بھی لینا ضروری ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ کئی اراکین نے حالیہ اجلاسوں میں صفر فیصد شرکت کی، جبکہ ان کے خلاف نہ کوئی تحریک چلی، نہ کوئی نوٹس دیا گیا۔ پھر شیخ وقاص اکرم کے خلاف یہ یک طرفہ کارروائی آخر کن بنیادوں پر؟
اگر اس شق کا اطلاق بلا تفریق کیا جائے تو اسمبلی کی نصف نشستیں خالی ہو جائیں۔ اس سے نہ صرف سیاسی انتشار پیدا کرے گا بلکہ جمہوریت پر عوام کا اعتماد بھی متزلزل ہو گا۔
سیاسی حلقوں میں یہ تاثر بھی زور پکڑ رہا ہے کہ شیخ وقاص اکرم کو ان کی سیاسی وابستگی یا تنقیدی مؤقف کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اگر واقعی یہ تحریک اصولی بنیاد پر ہے، تو پھر باقی ارکان کی فہرست شائع کر کے یکساں کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟
قانون اور آئین سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔ اگر شیخ وقاص اکرم کی نشست غیر حاضری پر خالی قرار دی جاتی ہے، تو باقی 100 سے زائد اراکین کے خلاف بھی آئینی کارروائی لازم ہے۔
ورنہ یہ سوال ہمیشہ زندہ رہے گا: ’صرف شیخ وقاص ہی کیوں؟‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔