پاکستان میں 26ویں آئینی ترمیم تو منظور ہوگئی ہے لیکن اس میں حزب اختلاف کے ممبران پارلیمان کے ووٹ حاصل کیے گئے ہیں جس کے بعد ان کی پارلیمان کی اور پارٹی کی رکنیت ختم کرنے کے عمل کا آغاز ہوگیا ہے لیکن یہ معاملہ اب تنازعے کا مرکز بنتا دکھائی دے رہا ہے۔
اگر ماضی میں بھی دیکھا جائے تو پارلیمان میں وفاداریاں تبدیل کرا کے حکومتیں بدلنے یا قانون سازی کے لیے نمبر گیم ہوتا رہا ہے۔
تاہم پیپلز پارٹی کے آخری دور حکومت میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے فلور کراسنگ یعنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے پر 63 اے کے ذریعے نااہلی کی شرط رکھی گئی تھی۔
لیکن 2022 اپریل میں بانی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے خلاف پی ٹی آئی کے 20 سے زائد اراکین کی حمایت سے اپوزیشن اتحادی جماعتوں (پی ڈی ایم) نے عدم اعتماد کامیاب کرالی۔
اب حکمران اتحاد نے ایک بار پھر دو تہائی اکثریت نہ ہونے کے باوجود عدالتی اصلاحاتی پیکج پر مشتمل 26ویں آئینی ترمیم کافی جدوجہد کے بعد پارلیمان سے منظور کرائی ہے۔
اس بار بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے دو سینیٹرز کی وفاداریاں جبکہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ پانچ اراکین اسمبلی کو ساتھ ملا کر دو تہائی کا ہدف پورا کیا گیا۔
اس میں سب سے زیادہ اہم کردار جے یو آئی رہنما فضل الرحمٰن کا رہا لیکن انہوں نے اپنی مرضی سے حکومت کا ساتھ دیا ہے۔
اس حوالے سے ایک بار پھر اپوزیشن کی جانب سے فلور کراسنگ کے مرتکب اراکین کے خلاف کارروائی کا دعویٰ اور ان آئینی ترامیم کو غیر اخلاقی قرار دیا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے آئینی ترامیم پاس ہونے کے بعد قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب میں کہا کہ ’آئینی ترامیم کی منظوری کے لیے حکومت کا ساتھ دینے والے اپوزیشن اراکین آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے اس لیے ان پر فلور کراسنگ کا قانون لاگو نہیں ہوسکتا۔ قانون کے مطابق کسی پارٹی سے تعلق نہ ہونے پر ممبران اسمبلی اپنی مرضی سے ووٹ دے سکتے ہیں۔‘
جبکہ تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر سیف نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ممبران جنہوں نے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیا ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
بی این پی مینگل نے بھی پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی پر دونوں سینیٹرز کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا ہے۔ بی این پی کے ایک سینیٹر قاسم رونجھو نے اپنی نشست سے استعفی بھی آج بروز منگل سینیٹ میں جمع کرایا ہے۔
بی این پی مینگل کے سربراہ نے آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والے دونوں اراکین سے استعفیٰ مانگا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ممبران اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل کرا کے عدم اعتماد کی کامیابی یا قانون سازی سے جمہوری نظام مضبوط ہو سکتا ہے؟ آئین کی شق 63 اے کے تحت پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے پر نااہلی بھی فلور کراسنگ روکنے میں ناکام ہے؟
اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں پاور پولیٹیکس کا نظام ہے۔ یہ ہر دور حکومت میں ہوتا رہا ہے جس طرح پی ٹی آئی نے اپنے دور میں آرمی چیف کی مدت ملازمت کے دوران اپوزیشن کی حمایت حاصل کی۔ چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر کے صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنایا۔‘
سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ اسی طرح ماضی میں مسلم لیگ، پیپلز پارٹی نے اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن اراکین کی حمایت سے پہلے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کامیاب کی اب آئینی ترامیم دو تہائی اکثریت سے منظور کرا لی۔ مگر اس طرح کی کارروائیوں سے جمہوری نظام مضبوط ہونے کی بجائے کمزور ہو رہا ہے۔‘
آئینی ترامیم کی منظوری اور فلور کراسنگ کا قانون
حکمران اتحاد کو سینیٹ کے کل 96 کے ایوان میں 58 ممبران کی حمایت حاصل تھی مگر دو تہائی کے لیے 64 اراکین درکار تھے۔ جس کے لیے جے یو آئی کے پانچ اراکین کے ساتھ تعداد 63 ہوئی جبکہ دو بی این پی کے سینیٹرز نے ووٹ دینے کی حامی بھری۔
حکمران اتحاد نے اتوار کی رات 65 ووٹوں کی حمایت سے یہ ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کرا لی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد اتوار کو ہی رات گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں یہ ترامیمی بل پیش کیا گیا۔ حکومت کو 225 اراکین کی مدد سےدو تہائی اکثریت حاصل ہوئی۔ جس میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کے کل 212 کی حمایت حاصل تھی۔ جے یو آئی ف کے آٹھ اور پانچ آزاد ارکان کو ملا کر کُل 225 ارکان نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا جبکہ اپوزیشن کے 12 ارکان نے مخالفت کی۔
اپوزیشن کے جن ممبران نے آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا ان میں ظہور حسین قریشی، مبارک زیب، چوہدری عثمان، اورنگزیب کھچی اور چوہدری الیاس شامل ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی گوہر خان نے میڈیا سے گفتگو میں دعویٰ کیا تھا کہ ان کے دو سینیٹرز فیصل رحمٰن اور زرقا تیمور پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیں گے۔ لیکن ان دونوں نے ووٹ نہیں دیا۔
زرقا تیمور نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا کہ وہ کل بھی عمران خان کے ساتھ تھیں اور اب بھی پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔
اسی طرح شاہ محمود قریشی کے بیٹے ایم این اے زین حسین قریشی نے اپنے بیان میں کہا کہ ’مجھ پر وفاداریاں تبدیل کرنے کا الزام غلط ہے اس حوالے سے خبریں بے بنیاد چلائی جا رہی ہیں۔ میں تحریک انصاف کے ساتھ ہوں کسی بھی دباؤ کے تحت پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ نہیں دیا۔‘
سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب میں سابق وزیر اعلی چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف مسلم لیگ ن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ دیا تھا کہ 63اے کے تحت فلور کراسنگ پر نااہلی برقرار رہے گی لیکن منحرف اراکین کا ووٹ نہیں گنا جائے گا۔
اس حوالےسے حکمران اتحاد کی اپیل پر سپریم کورٹ نے کچھ دن پہلے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے کر منحرف اراکین کے ووٹ گننے کا قانون بحال کر دیا۔
موجودہ حکومت نے جوڈیشل پیکج منظور کرانے کے لیے 26 ویں آئینی ترمیم لانے کا اعلان کیا۔ آئین پاکستان کے مطابق اس پیکج کی منظوری کے لیے حکومت کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں دو تہائی ممبران کی حمایت حاصل ہونا ضروری تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے بلے کے نشان پر حالیہ انتخاب نہ لڑنے کے باعث الیکشن ایکٹ کے تحت مخصوص نشستوں سے محروم کر دیا۔ یہ نشستیں دیگر جماعتوں میں تقسیم کر دی گئیں۔ جس سے حکومت کو دوتہائی اکثریت حاصل ہوئی۔ لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے یہ نشستیں ان جماعتوں سے واپس لے کر پی ٹی آئی کو دینے کا حکم دیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے تقسیم شدہ نشستوں کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا اس طرح حکمران اتحاد کی دو تہائی اکثریت ختم ہو گئی۔
فلور کراسنگ کے نظام جمہوریت پر اثرات
تجزیہ کار حسن عسکری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ترقی پذیر دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی پاور پولیٹکس کا نظام چل رہا ہے۔ یہاں ہر حکومت خود کو مضبوط کرنے جبکہ اپوزیشن حکومت گرانے کی حکمت عملی بناتی رہتی ہے۔ اس طرح کے نظام کو جمہوری نظام نہیں کہا جاسکتا کیونکہ جمہوریت کے نام پر یہاں اقتدار کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ عوام کے لیے پالیسی نہیں بلکہ طاقت حاصل کرنے کے لیے قانون سازی کی جاتی ہے۔‘
’فلور کراسنگ کا قانون بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے اس میں بھی اراکین کو نااہلی کی سزا کا قانون موجود ہونے کے باوجود وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ حکومت کسی کی بھی ہو لیکن طرز حکومت ایک ہی چلتا ہے۔‘
سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی نے انڈپیںڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سیاسی تبدیلیوں کا عمل اگر نظریاتی اور اصولی بنیاد پر ہو تو قابل قبول ہوتا ہے مگر پاکستان کی سیاسی تاریخ سیاسی تبدیلیوں کے حوالے سے موقع پرستی سے عبارت ہے۔ دباؤ ان پر آتا ہے جو دباؤ قبول کرتے ہیں۔ یہاں تو جماعتوں میں سے نئی جماعتیں بنانا بھی تاریخ کا حصہ ہے۔‘
سلمان غنی کے بقول، ’ لوگ وابستگی تبدیل کرتے شرماتے بھی نہیں اور المیہ بھی یہی ہے۔ اس ترمیم کے موقعے پر بھی دو تہائی اکثریت لازم تھی جو حکومتی اتحادیوں کو حاصل نہ تھی اور اسے ممکن بنانے کی ذمہ داری سیاسی و غیر سیاسی سب پر تھی۔‘