مجوزہ ترمیم، بینچ پر اتفاق ہوا ہے لیکن میری رائے آئینی عدالت ہے: ایمل ولی

پارلیمان کے دونوں ایوان کے اجلاسوں سے قبل مجوزہ آئینی ترامیم کے جائزے کے لیے بنائی گئی پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس جاری ہے، جس میں پی ٹی آئی کے ارکان بھی شریک ہیں۔

17 اکتوبر، 2024 کی اس تصویر میں پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس کے بعد ایمل ولی میڈیا سے بات کر رہے ہیں (اے این پی، فیس بک)

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سینیٹر ایمل ولی خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ مجوزہ آئینی ترمیم کے سلسلے میں ’آئینی بینچ کے قیام پر اتفاق ہوا ہے۔‘

جمعرات کو ان سے سوال کیا گیا تھا کہ ’آئینی بینچ بنوا رہے ہیں یا آئینی عدالت؟ جس کے جواب میں سینیٹر ایمل ولی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ ’آئینی بینچ پر اتفاق ہوا ہے، لیکن میری رائے ابھی بھی آئینی عدالت ہے۔‘

اس سے قبل پارلیمان کے دونوں ایوان کے بدھ کو ہونے والے الگ الگ اجلاسوں سے قبل مجوزہ آئینی ترامیم کے جائزے کے لیے بنائی گئی پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس جاری ہے جس میں پی ٹی آئی کے اراکین بھی شریک ہیں۔

اس اجلاس میں حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے نمائندے بھی شریک ہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) مجوزہ آئینی ترمیم کی اب تک کھل کر مخالفت کرتی رہی ہے لیکن اس کے باوجود وہ پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کرتی رہی ہے۔

حکومت گذشتہ لگ بھگ ایک ماہ سے مجوزہ آئینی ترامیم کو پارلیمان سے منظور کروانے کے لیے کوشاں ہے لیکن مطلوبہ اکثریت نہ ہونے، پی ٹی آئی اور مولانا فضل الرحمٰن کی طرف سے اس کی مخالفت پر اس عمل کو موخر کر دیا گیا۔

البتہ مولانا فضل الرحمٰن کی طرف سے مجوزہ مسودے پر اتفاق رائے کے بعد 26 آئینی ترمیم کی پارلیمان سے منظوری کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

لیکن حکومت کے لیے اب بھی اس عمل میں کئی چیلنجز ہیں جن میں سے وکلا تنظمیوں کی طرف سے مجوزہ آئینی ترامیم کی مخالفت ہے کیوں کہ ان کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد عدالتی تقرریوں کے لیے ایگزیکٹو کو مزید اختیارات دینا ہے۔

مجوزہ ترامیم میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام، اعلیٰ ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں تین سال اضافے اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کی تقرری کے عمل میں تبدیلی کی متوقع ہے۔

پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے پہلے ہی جمعہ کو ملک گیر احتجاج کی کال دیتے ہوئے مجوزہ ترامیم کی مخالفت کا اعادہ کیا ہے۔

اسی حوالے سے جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ مجوزہ آئینی ترمیم کے حوالے سے تقریباً اتفاق ہو گیا ہے۔

مجوزہ آئینی ترمیم: سپریم کورٹ میں دائر درخواست خارج

اس سے قبل سپریم کورٹ آف پاکستان میں مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواست واپس لیے جانے کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے مقدمہ خارج کر دیا ہے۔

نامہ نگار مونا خان کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ آج درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزاروں کی جانب سے درخواست واپس لینے پر سپریم کورٹ نے درخواست خارج کر دیں۔

 بینچ کے دیگر ججز میں جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال بینچ میں شامل ہیں۔ سینیئر وکیل عابد زبیری نے مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف آئینی درخواست دائر کی تھی۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ مجوزہ آئینی ترامیم کو آئین پاکستان کے خلاف قرار دیا جائے اور وفاقی حکومت کو مجوزہ آئینی ترامیم پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے روکا جائے۔

درخواست میں وزارت وفاقی وزارت قانون، چاروں صوبوں کو فریق بنایا گیا، سپیکر قومی اسمبلی، سینیٹ، پرنسپل سیکریٹریز، وزیر اعظم و صدر بھی فریقین میں شامل تھے۔

جبکہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے جمعرات کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اجلاس طلب کر لیا ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس 17 اکتوبر کو شام چار بجے جبکہ سینیٹ کا اجلاس تین بجے طلب کیا گیا ہے۔

بدھ کی شب جاتی عمرہ میں وزیراعظم شہباز شریف، صدر پاکستان آصف علی زرداری اور پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف سے ملاقات کے بعد انہوں نے میڈیا سے گفتگو کی۔

اس موقعے پر ان کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری، نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کے علاوہ وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ بھی موجود تھے۔

میڈیا سے گفتگو سے کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ’جے یو آئی آئینی ترمیم پر مشاورت کے لیے کل اسلام آباد میں پی ٹی آئی سے ملے گی۔ پی پی سے مجوزہ آئینی ترمیم پر اتفاق رائے کیا تھا، نوازشریف نے عشائیے میں دعوت دی تھی، صدر زرداری بھی آئے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’عدلیہ سے متعلق اصلاحات پر اتفاق رائے کر لیا ہے، دیگر مجوزہ ترامیم پر بھی مشاورت کریں گے، ابتدائی ترمیم کو مسترد کیا تھا، اسے آج بھی مسترد کرتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس موقع پر پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے شکرگزار ہیں، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف کے درمیان 26 ویں ترمیم، جوڈیشل ریفارمز پر اتفاق ہوا تھا، یہ اتفاق رائے کل تک دو جماعتوں میں تھا آج تین جماعتوں کے درمیان ہو چکا ہے۔‘

بلاول بھٹو نے کہا کہ ’پی پی، جے یو آئی، ن لیگ کا جوڈیشل ریفارمز کا جو ارادہ ہے، اس سے ہم پارلیمان اور آئین کی بالادستی چاہتے، عوام کو فوری انصاف دلانا چاہتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک بڑی تاریخی کامیابی ہے کہ ہم اتفاق رائے کی طرف بڑھ رہے ہیں، امید ہے اسی اتفاق رائے کے ساتھ مناسب وقت پر مجوزہ ترمیم کو دونوں ایوانوں سے پاس کرائیں گے۔‘

اس موقع پر نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’تینوں پارٹیوں کے قائدین کے درمیان آئینی ترمیم پرتفصیل سےبات ہوئی، جوڈیشل ریفارمز پر ہم تین جماعتوں میں اتفاق رائے ہو چکا ہے۔‘

اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’یہ ساری کوششیں عوام کی بہتری کے لیے ہو رہی ہیں۔ اس کام میں کسی بھی پارٹی کا ذاتی مقصد نہیں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست