پنجاب اسمبلی کے سپیکر ملک محمد احمد خان نے جمعرات کو حزبِ اختلاف کے 26 اراکین کو نااہل قرار دینے کی غرض سے ان کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کروا دیا۔
سپیکر ملک محمد احمد خان جمعرات کی صبح اسلام آباد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دفتر پہنچے، جہاں انہوں نے ریفرنس جمع کروایا۔
پنجاب اسمبلی میں حزب اختلاف سنی اتحاد کونسل کے اراکین پر مشتمل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
27 جون کو پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ مریم نواز کی تقریر کے دوران شور شرابہ اور ہنگامی آرائی کے علاوہ توڑ پھوڑ کرنے پر اپوزیشن کے 26 ارکان کی رکنیت معطل کی گئی تھی۔
جس کے بعد 28 جون کو سپیکر پنجاب اسمبلی نے حزب اختلاف کے 26 اراکین کو معطل کرتے ہوئے ان کی نااہلی کے لیے ریفرنسز اُسی روز الیکشن کمیشن کو بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔
الیکشن کمیشن میں دائر کیے گئے ریفرنس میں سپیکر نے ایوان کے قواعد کی شق 15 اور 210 کا حوالہ دیا اور کہا: ’اراکین نے ضابطے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جان بوجھ کر بدنظمی پیدا کی۔‘
دوسری طرف پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بچھڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار ارشد چوہدری سے گفتگو میں کہا کہ ’حکومت پنجاب اپوزیشن کے احتجاج کا حق سلب کرنا چاہتی ہے۔ اگر ہم وزیراعلیٰ کی موجودگی میں احتجاج نہیں کریں گے تو کہاں کریں گے؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’سپیکر پنجاب اسمبلی ہمارے اراکین کے خلاف انتقامی کارروائی کر رہے ہیں، جو غیر قانونی ہے۔ اس اقدام کو ہر فورم پر چیلنج کریں گے۔ اپوزیشن کو عوامی مسائل اجاگر کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔‘
نااہلی ریفرنس کی تفصیلات
ریفرنس کے مطابق: ’سپیکر پنجاب اسمبلی نے 26 اراکین کے خلاف ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی رپورٹ جاری کی ہے۔ ہنگامہ آرائی، بدتمیزی اور سپیکر کی رولنگ کو نظر انداز کرنے پر اراکین کے خلاف کارروائی کی گئی۔ اراکین نے اسمبلی قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کی اور سپیکر کے بار بار کہنے کے باوجود اراکین نے ایوان میں نظم بحال نہ ہونے دیا۔‘
ریفرنس میں مزید بتایا گیا کہ ’اسمبلی قواعد کے رول نمبر 210 کے تحت سپیکر نے اختیار استعمال کیا۔ ارکان نے جان بوجھ کر کارروائی میں خلل ڈالا اور شور شرابے کے باعث اسمبلی کی کارروائی معطل کرنا پڑی۔‘
سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کی عمارت کے باہر میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’جن لوگوں نے آئین کے تحت ایوان میں اٹھائے گئے، حلف کی پاسداری نہیں کی، انہیں اس ہاؤس کا رکن رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’میرے بنیادی طور پر تین سوالات ہیں۔ یہ سوالات میں نے الیکشن کمیشن کے سامنے رکھے ہیں۔ پہلا یہ کہ ہم آئین کی پاسداری کا حلف اٹھاتے ہیں، پھر اس کی خود ہی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ہم بطور رکن پہلے دن اسمبلی جا کر آئین کی پاسداری اور حفاظت کا حلف اٹھاتے ہیں۔ اسی آئین کی شق 69 میں لکھا ہے کہ اسمبلیاں اپنے قواعد خود بنائیں گی۔ پاکستان میں اسمبلیوں کے علاوہ کوئی قواعد وضوابط آئینی حیثیت نہیں رکھتے۔ کیا وہ ایوان جہاں یہ رولز بننے ہیں، وہاں ہلڑ بازی کرنا، ماں بہن کی گالیاں دینا درست ہو گا؟ کیا اس ایوان میں لوگوں کو مارنا اور گریبان سے پکڑنا درست ہے؟‘
ملک محمد احمد خان کے مطابق: ’ایسا کوئی بھی سیاسی جماعت کرے تو وہ غلط ہے۔ میں آئین کی بالادستی کے لیے یہ کیس لڑوں گا۔ میں نے بطور سپیکر ڈیڑھ برس تک تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ کیا بطورِ سپیکر میرا تحمل کا مظاہرہ جمہوری نہیں ہے۔ میں نے اپنے منصب کی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں۔ گالیاں دینا جمہوریت نہیں ہے، بلکہ یہ جمہوریت دشمنی ہے۔ ایوان تو وہ جگہ ہے جہاں پر دلیل ہوگی اور بجٹ پیش ہو گا۔‘
سپیکر پنجاب اسمبلی نے مزید کہا کہ ’اپوزیشن نے فارم 47 کے نام پر 37 درخواستیں دائر کی ہیں۔ 12 درخواستیں اپوزیشن کے خلاف ہیں، تو کیا 25 پٹیشنز کی بنیاد پر پورے پاکستان کا جمہوری نظام مفلوج کرنا چاہتے ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’اپوزیشن کا جو طرزِ عمل ہے میں اسے ایوان میں برداشت نہیں کروں گا۔ آئین توڑنے والے 25 کی بجائے 35 بھی ہوں گے تو میں وہی کروں گا جو کر رہا ہوں۔‘