پنجاب اسمبلی میں مادری زبانوں کو سکولوں میں لازمی قرار دینے کا بل پیش کر دیا گیا ہے، جس کے مطابق پنجابی، سرائیکی اور دیگر مقامی زبانوں کو بچوں کی تعلیم اور ثقافتی ورثے کا حصہ بنایا جائے گا۔
حکومتی رکن صوبائی اسمبلی امجد جاوید کی جانب سے پیش کیے گئے اس بل کے مطابق پرائمری سطح کے تمام سرکاری، نجی سکولوں اور دینی مدارس میں بھی مادری زبان کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے گا۔
اس بل میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ پنجاب کے ہر ضلعے میں بولی جانے والی زبان کو سرکاری گزٹ کے ذریعے مخصوص کیا جائے گا۔
بل کے مطابق حکومت ہر ضلعے کے لیے مادری زبان میں نصابی کتب تیار کرے گی، انہیں مفت تقسیم کرے گی جبکہ ان زبانوں کو پڑھانے کے لیے اساتذہ کو خصوصی تربیت بھی دی جائے گی۔
بل لانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
بل پیش کرنے والے رکن اسمبلی امجد جاوید کہتے ہیں کہ دنیا میں کسی نے اس وقت تک ترقی نہیں کی، جب تک انہوں نے اپنے تعلیمی نظام کو اپنی مادری زبان میں نہیں ڈھالا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ’دنیا بھر میں مادری زبانوں کی ترقی و ترویج کے لیے کام ہو رہا ہے لیکن ہمارے ہاں آج تک مادری زبان پر کام نہیں ہوا، خصوصاً پنجاب اس میں بہت پیچھے ہے، اسی لیے ہم نے اس پر کام شروع کیا ہے اور اسے قانونی شکل دینے کی کوشش کی ہے تاکہ سکول کی سطح پر مادری زبان کو بچوں کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے کیونکہ ہمارے بچے مادری زبان کو بھولتے جا رہے ہیں۔‘
امجد جاوید نے بتایا کہ مادری زبان انٹر کی تعلیمی سطح سے آپشنل مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے، لیکن اس سے پہلے چونکہ بچوں کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی، اس لیے اسے بطور مضمون کوئی زیادہ پزیرائی حاصل نہیں ہوئی۔
’اب جب بچوں کی بنیاد اس زبان میں ہو گی تو وہ مادری زبان سے واقف بھی ہوں گے، اس لیے انہیں ابتدائی کلاسوں سے ہی پڑھانے کا معاملہ اٹھایا گیا ہے۔‘
مادری زبان کو سکولوں میں پڑھانا خوش آئند فیصلہ ہے؟
ڈاکٹر عامر ظہیر بھٹی، نمل یونیورسٹی میں فرانسیسی زبان کے اسسٹنٹ پروفیسر اور شعبے کے سربراہ ہیں، جنہوں نے فرانس سے صوتیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔
وہ پنجابی میں ایک سفر نامہ ’کافی، چاکلیٹ تے پرفیوم‘ بھی لکھ چکے ہیں، جو پنجاب یونیورسٹی کے بی ایس کے سلیبس کا حصہ ہے اور 2022 مین بہترین نثر کا ایوارڈ بھی حاصل کر چکا ہے۔
ڈاکٹر عامر ظہیر کی بنیادی دلچسپی وادی سندھ کی زبانوں اور اس خطے کی لسانی خصوصیات کے حوالے سے ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ مادری زبان کو قانونی شکل دینے کا فیصلہ بالکل درست ہے کیونکہ باقی صوبوں میں یہ پہلے سے ہو رہا ہے صرف پنجاب میں اس بات کا احساس نہیں تھا کہ ہم اپنی مادری زبان کو کھو رہے ہیں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ ’اس میں جو اضلاع میں فرق کیا گیا ہے کہ ہر ضلعے کی زبان پڑھائی جائے وہ ٹھیک نہیں، اسی کے لیے ہم نے ایک قاعدہ ترتیب دیا ہے، جو سارے علاقوں کو کوور کرے گا۔‘
ڈاکٹر عامر ظہیر بھٹی نے حال ہی میں پنجابی کی مختلف اقسام کو آسانی سے بولنے اور سمجھنے کے لیے ’سانجھا قاعدہ‘ کے نام سے ایک قاعدہ بھی ترتیب دیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ڈاکٹر عامر ظہیر نے بتایا: ’پنجابی جن علاقوں میں بولی جاتی ہے، اسے اپر انڈس ویلی یا بالائی وادی سندھ کہا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’بالائی وادی سندھ میں زیادہ تر پنجاب اور پنجاب کے ساتھ خیبر پختونخوا کے علاقے جیسے ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ، پشاور یا پھر ہزارہ کا علاقہ اور اسی طرح پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا علاقہ شامل ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بالائی وادی سندھ میں زبان کی مختلف اقسام ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں، اس میں تھوڑا تھوڑا فرق بھی ہے اور میرا یہ خیال ہے کہ ان سب کو ہم ایک ہی سکرپٹ میں لکھ سکتے ہیں، جس کے لیے میں نے ایک قاعدہ تیار کیا، جس میں میں نے اس خطے کے عام الفاظ لیے، اسے حروف تہجی دیے اور ان سے وہ الفاط بنائے، جو اس پورے خطے میں بولے جاتے ہیں۔
’اس طرح میں نے سرائیکی، ہندکو، پوٹھوہاری اور پنجابی کی ڈکشنریوں کو بھی سامنے رکھا اور یہ قاعدہ ترتیب دیا۔‘
عامر ظہیر کا کہنا ہے کہ ان کی اپنی تحقیق کے مطابق پنجاب کے کچھ اضلاع ایسے ہیں جہاں ایک ایک ضلعے کے اندر دو مختلف بولیاں بولی جاتی ہیں جیسے میانوالی، خوشاب، بھکر یا ملتان کی بات کروں تو وہاں ’مجھے‘ کو ’مینو‘ یا ’میکو‘ بھی بولا جاتا ہے، اسی طرح ’تمہیں‘ کو ’تینوں‘ اور ’تیکو‘ بھی بولا جاتا ہے۔‘
تاہم دانشور، فکشن نگار، صحافی اور ماہر تعلیم ڈاکٹر جمیل احمد پال حکومتی فیصلے سے زیادہ خوش دکھائی نہیں دیے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ’اس بل کے پیچھے بدنیتی لگتی ہے۔ اس بل میں پہلے ہی دو ڈائنامائٹ رکھ دیے گئے، ایک تو یہ کہ پنجابی و دیگر مقامی زبانوں کو لاگو کیا جائے۔ اب اس میں دیگر زبانیں کون سی ہیں؟ ظاہری بات ہے سرائیکی کریں گے، پوٹھوہاری کریں گے، ایک نئی ہریانوی زبان بنا رہے ہیں، انہوں نے پہلے ہی یہ سوچ لیا ہے کہ جہاں پنجابی کی بات ہو وہاں اس کے مقابلے میں کوئی دوسری زبان کھڑی ہو۔‘
جمیل احمد کا مزید کہنا تھا کہ ’ضلعوں کی بنیاد پر زبان کا تعین کیا جائے گا، پنجاب میں 40 اضلاع ہیں، تعین سرکار کرے گی اب انہوں نے کرنا یہ ہے کہ لاہور اور فیصل آباد میں تو پنجابی ہو گی، باقی کہیں سرائیکی ہو گی، کہیں پوٹھوہاری ہو گی۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’یہ دیگر زبانیں پنجابی کے لہجے ہیں لیکن انہیں زبان کہہ کر پنجابی کے مقابلے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے تاکہ پنجابی زبان کا راستہ روکا جا سکے۔ اس بل میں بدنیتی ہے کہ پنجابی کا نعرہ تو چلتا رہے لیکن زبان لاگو نہ ہو سکے جہاں لاگو ہونے کی بات ہو گی وہاں مسئلہ کھڑا کر دیا جائے گا۔‘
سانجھ پبلکیشن کے مالک امجد سلیم منہاس نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’اس بل کے ذریعے پنجاب کے اندر موجود لسانی تنوع کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک نیا آئیڈیا متعارف ہونے جا رہا ہے، کیونکہ ہمارے ہاں دو تین بڑی زبانیں سرائیکی، پنجابی اور پوٹھوہاری ہیں اور یہ زبانیں حقیقت ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ ان زبانوں کو سرکاری زبانوں کا درجہ نہیں دیا جا رہا بلکہ یہ پہلا مرحلہ ہے کہ پنجابی زبان کو بطور مضمون پڑھایا جائے۔‘
’ہم نے 2013 میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ پنجابی کو بطور مضمون پڑھایا جائے تو یہ ہمارا پہلا مطالبہ پورا ہوا ہے۔‘
لمز یونیورسٹی کے پروفیسر اور ماہر تعلیم ڈاکٹر فہد علی نے اسے خوش آئند قرار دیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ڈاکٹر فہد علی نے بتایا کہ ’پنجابی زبان سکولوں میں پڑھانی چاہیے کیونکہ کہا یہ جاتا ہے کہ پہلی پانچ جماعتیں مادری زبان کے اندر ہی ہونی چاہییں۔ ہمارے ہاں بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مادری زبان کے اندر کسی بھی صوبے میں پرائمری کی تعلیم نہیں دی جاتی اور پرائمری کے بعد دیگر زبانیں سکھانے کی کو شش کی جاتی ہے، جس میں انگریزی بھی شامل ہے اور اردو بھی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’میرے خیال میں تو نہ صرف پنجابی زبان کو سکولوں میں پڑھانا اور سکھانا چاہیے بلکہ ہمیں کوشش یہی کرنی چاہیے کہ پرائمری تک تعلیم پنجابی میں ہی کر دیں تاکہ اس زبان میں باقاعدہ کتابیں لکھی جائیں، بچوں کے لیے کہانیاں لکھی جائیں اور یہی چیزیں زبان کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کر سکیں گی۔‘