پنجابی فلموں کو بہتر بنانا وقت کی ضرورت ہے: انڈین فلم ساز

لاہور میں ’عالمی پنجابی کانفرنس‘ کے شرکا نے انڈیا کی طرح پاکستانی پنجابی فلموں کے معیار کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔

انڈین اور پاکستانی پنجاب سے تعلق رکھنے والی شوبز سے وابستہ شخصیات نے پنجابی زبان کے فروغ کے لیے پنجابی فلموں اور ڈراموں کو ناگزیر قرار دیا ہے۔ 

لاہور میں تین روزہ عالمی پنجابی کانفرنس میں دونوں طرف کے شرکا نے اس بات پر زور دیا کہ جس طرح انڈیا میں پنجابی فلموں کا معیار بڑھ رہا ہے، اسی طرح پاکستان میں بھی اس زبان میں بننے والی فلموں کو جدید انداز میں بنایا جانا چاہیے۔

شرکا نے کہا کہ پاکستان میں بننے والی ’مولا جٹ‘ جیسی پرانی فلموں کو نئے انداز میں پیش کرنے کی بجائے نئے موضوعات تلاش کیے جائیں۔ 

’سینما انڈسٹری کسی بھی زبان بولنے والوں کے ثقافتی اثاثے کی دستاویز کا درجہ رکھتی ہے۔‘

پنجابی فلموں کے انڈین اداکار ملکیت رونی نے کہا کہ ’ہمیں یہ لگتا ہے سینیما ایک دستاویز ہے آج 2024 میں جو فلم بن رہی ہے، چاہے وہ لیندے پنجاب میں بنتی ہے یا چڑھدے میں بنتی وہ ہمارا ایک دستاویز ہے۔

’ہماری نسل نے 2050 یا اس کے بعد جا کرجب یہ دیکھنا ہے کہ 2024 والے لوگ کیا کر رہے تھے؟ وہ کیا سوچ رہے تھے؟ ان کا شعور کہاں کھڑا تھا؟ان کا فیشن کیا تھا؟ وہ کیسی باتیں کرتے تھے؟ ان کا رہن سہن کیا تھا؟ ان کو 2024 کا سینیما اٹھا کر دیکھنا پڑے گا، جو ہماری نسل امریکہ، کینیڈا سمیت کئی ملکوں میں بیٹھی ہے۔ انہیں ہماری تاریخ کا علم پرانی بنائی گئی فلموں سے ہی ملتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جب ہم نہیں ہوں گے تو آنے والی نسلیں بھی ہمیں مستقبل میں آج بنائی گئی فلموں سے ہی یاد رکھیں گی۔ جس طرح آج ہمیں 1947 کے مشترکہ پنجاب میں اپنے آبا ؤ اجداد کا کلچر اس وقت کی فلموں سے معلوم ہوا ہے۔‘

پاکستانی مصنفہ نسیم کوثر کے مطابق ’انڈیا اورہماری پنجابی فلموں کے معیار میں بہت فرق ہے۔ انڈین پنجابی فلمیں سوشل ایشوز کو اجاگر کر رہی ہیں۔

’آپ دیکھیں وہ ہر ٹاپک پر گھریلو اور سماجی معاملے پر ہر طرح کی فلم بناتے ہیں۔ جنہیں گھروں میں سب بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں لیکن جو ہماری پاکستانی پنجابی فلمیں ہیں وہی روایتی مولا جٹ جو 2025 سال پہلے بن گئی تھی۔ اس میں بھی مار دھاڑ کے سوا کچھ نہیں۔ اب بھی اسے ہی توڑ مروڑ کر اداکاروں کو نئے کپڑے پہنا کر فلمیں بنائی جا رہی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا خیال تھا کہ ’ہمارا پنجابی سینیما بہت نظر انداز ہے۔ کوئی اس پر توجہ نہیں دے رہا۔ سرمایہ کار نہیں ہے۔ ڈائریکٹر پنجابی کے لیے کام کرنے کو تیار نہیں۔ اداکار بھی پنجابی بولنا پسند نہیں کرتے۔ جس وجہ سے ہمارا پنجابی سینیما بہت پیچھے ہے۔‘

جالندھرانڈیا سے آئے فلم رائٹر ایس ایشوک پورا نے کہا کہ ’میرے خیال میں پنجابیوں کے پاس انڈین پنجاب یا پاکستانی پنجاب میں کہانیاں بہت ہیں۔ بہت مضمون ہیں۔ شاید وہ ہالی ووڈ یا بالی ووڈ کے پاس بھی نہیں۔ اس لیے یہاں پنجابی فلموں کی مانگ ہے۔

’گذشتہ کچھ عرصے میں پاکستانی پنجاب میں کم پنجابی فلمیں بنیں، جب کہ زیادہ بننی چاہیے کیونکہ ہم سب منتظر رہتے ہیں کہ پاکستانی پنجاب سے اچھی فلم آئے اور ہم مل کر دیکھیں۔‘

پاکستانی پروڈیوسرعامر رضا کا کہنا تھا کہ ’ایک دور تھا جب ہماری شیر خان اور مولا جٹ جیسی فلمیں انڈیا میں کاپی کرنے کی کوشش کرتے تھے لیکن وہ اس کے معیار تک نہیں پہنچتے تھے مگر اب رجحان بدلا ہے۔ 

’سینیما میں فلمیں دیکھنی ہیں نوجوان نے، اس لیے کہانی وہ لینی پڑے گی جو نوجوان کواپنی طرف متوجہ کرے۔ اس کے لیے ہمیں بہت شعبوں میں کام کرنا پڑے گا۔ سکرپٹ پر کام کرنا پڑے گا، پروڈکشن پر کام کرنا پڑے گا، سینیما سرکٹ پر کام کرنا ہو گا۔ فلم کے بجٹ پر کام کرنا پڑے گا۔ نوجوان نسل آگے آئے گی وہ اچھی فلم بنائے گی تب ہی سینیما چلے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم