سعودی کابینہ کی شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت کی منظوری

سعودی عرب کی کابینہ نے بدھ کو مملکت کے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا حصہ بننے کی منظوری دے دی۔

سعودی عرب کے سرکاری میڈیا کے مطابق سعودی عرب کی کابینہ نے بدھ کو مملکت کے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا حصہ بننے کی منظوری دے دی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی تشویش کے باوجود سعودی عرب چین کے ساتھ ایک طویل المدتی شراکت داری کی جانب بڑھ رہا ہے۔

سعودی عرب کے سرکاری خبر رساں ادارے سعودی پریس ایجنسی نے رپورٹ کیا ہے کہ سعودی عرب نے اس میمورینڈم کی منظوری دی ہے جس میں مملکت کو شنگھائی تعاون تنظیم میں ڈائیلاگ پارٹنر کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔

ایس سی او یورایشیا، انڈیا، روس اور چین پر مشتمل ایک سیاسی اور سکیورٹی یونین ہے جس میں وسط ایشائی ممالک بھی شامل ہیں۔

شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد سال 2001 میں روس اور چین نے سابق سوویت ریاستوں کے ساتھ مل کر رکھی تھی۔ جس کے بعد اب اس میں پاکستان اور انڈیا کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔

اس تنظیم کا مقصد خطے میں مغربی اثرونفوذ کا سامنا کرنے کے لیے کردار ادا کرنا ہے۔

ایران بھی گذشتہ سال اس تنظیم کی رکنیت کے لیے دستاویزات پر دستخط کر چکا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ گذشتہ سال دسمبر میں چینی صدر شی جن پنگ کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر سعودی عرب کی ایس سی او میں شمولیت کے معاملے پر بات چیت ہوئی تھی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مملکت کو مکمل رکنیت دینے سے قبل ڈائیلاگ پارٹنر اس تنظیم میں شمولیت کا پہلا قدم ہے۔‘

یہ فیصلہ سعودی کمپنی آرامکو کے چین میں اپنی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری میں اضافے کے ایک روز بعد کیا گیا ہے۔

ریاض کے بیجنگ کے ساتھ بڑھتے تعلقات نے واشنگٹن میں تشویش کا جنم دیا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ چین کی دنیا بھر میں اپنا اثر بڑھانے کی کوششیں مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی پالیسی میں تبدیلی کا باعث نہیں بنیں گی۔

ایس سی او میں شامل ممالک رواں سال اگست میں روس کے علاقے چیلیابنسک میں ’انسداد دہشت گردی‘ کی مشترکہ مشقیں کرنے کا منصوبہ بھی رکھتے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چین سعودی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے جب کہ سعودی عرب، جو ایک طویل عرصے سے امریکہ کا ساتھی رہا ہے، اپنی معاشی اور سیاسی شراکت داریوں میں تنوع پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا