تیسری عالمی جنگ فی الحال ٹل گئی

اسرائیل کے جوابی فضائی حملے پر ایران کے حیرت انگیز سنجیدہ ردعمل کو ایک امید افزا علامت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو کشیدگی کے خاتمے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

25 مئی، 2023 کو ایرانی وزارت دفاع سے جاری کردہ اس تصویر میں ایرانی ساختہ خیبر میزائل کی نمائش(اے ایف پی)

آج علی الصبح ہی وسطی ایران کے شہر اصفہان کے قریب ایک ایئربیس پر حملے کی اطلاعات موصول ہو رہی تھیں۔ اس طرح کا حملہ مشکل سے ہی غیر متوقع تھا۔

امریکہ، برطانیہ اور بہت سے دیگر ممالک کی تمام اپیلوں کے باوجود اسرائیل نے اس بات میں کوئی شک نہیں چھوڑا تھا کہ وہ ایک ہفتہ قبل ایران کے ناکام حملے کا فوجی جواب دے گا۔

ایسا لگتا ہے کہ حملہ ایک ایسی جگہ پر کیا گیا جس کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ اس کا تعلق ایران کے گذشتہ حملے کے ساتھ ہے۔

مزید برآں اسرائیلی حملہ ایرانی سپریم لیڈر کی سالگرہ کے دن کیا گیا لہٰذا ممکن ہے کہ اس حملے کا مقصد وہی ہو جو دکھائی دیا۔ بظاہر دکھائی دینے والی صورت حال کے باوجود ایران نے حملے کی تردید کر دی۔

اسرائیل نے کوئی بات نہیں کی اور یہ خلاف معمول نہیں۔ مثال کے طور پر اس نے دمشق میں ایرانی قونصلر کی عمارت پر یکم اپریل کو ہونے والے اس حملے کی ذمہ داری کبھی قبول نہیں کی جس کی وجہ سے ایران نے اسرائیل پر براہ راست حملہ کیا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

یہ عام اسرائیلی رویہ ہے کہ دوسروں کو اپنا نتیجہ اخذ کرنے کا موقع دیا جائے۔ وہ اپنے جوہری پروگرام پر بھی اسی طرح خاموشی اختیار کیے رکھتا ہے جو نام نہاد ’سٹریٹجک ابہام‘ کی ایک اور مثال ہے۔

تاہم ایران میں عام طور پر اس طرح کی خاموشی کا رواج نہیں۔ یہ بہت ہی عجیب صورت حال ہے جس میں اہم سوال یہ نہیں کہ حملہ کہاں ہوا اور نہ ہی اس سے کوئی جانی نقصان ہوا اور نہ ہی یہ کہ کتنا نقصان ہوا، اگر کچھ ہوا ہو تو، بلکہ سوال یہ ہے کہ آیا یہ مبینہ حملہ ہوا یا نہیں۔

ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے جو یقیناً ہم کریں گے کہ 18 اور 19 اپریل کی درمیانی شب ایرانی سرزمین پر ایک یا ایک سے زیادہ حملے ہوئے۔

عام اصول کے طور پر خبریں کہیں اور سے نہیں آتیں۔ یہ ابتدائی طور پر امریکہ سے آئیں۔ ایرانی ذرائع ابلاغ نے بھی جانی پہچانی فوجی تنصیبات کے آس پاس کے علاقے میں روشنیوں اور دھماکوں کی اطلاع دی۔ ان تنصیات کا تعلق ایران کے جوہری پروگرام سے بھی ہے۔

کیا دھماکے اور روشنیاں کسی حادثے کا نتیجہ ہو سکتے ہیں؟ شاید ایسا ہو، یا شاید نئے فوجی ردعمل کے بہانے کے طور پر ایران کی طرف سے جان بوجھ کر توجہ ہٹانے کا حربہ؟

شاید ایک بار پھر حملہ، لیکن واشنگٹن کی طرف سے کسی حملے کی باضابطہ مخالفت اور آیت اللہ خامنہ ای کی سالگرہ کے موقعے کے اضافی اتفاق کو دیکھتے ہوئے، یہ ناممکن لگتا ہے کہ کوئی حملہ نہیں ہوا یا جو کچھ بھی ہوا وہ کسی بدخواہ  کا کام نہیں تھا۔

یہی وجہ ہے کہ ایران کم از کم اب تک اس سے انکار کر رہا ہے۔ اس انکار کو اسرائیل کے ساتھ کشیدگی کے خاتمے کی جانب اشارہ کرنے والی امید افزا علامت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

کیونکہ اگر ایران کی نظر میں اسرائیل کوئی حملہ نہیں کرتا تو پھر فوجی ردعمل کی کوئی ضرورت نہیں رہتی اور براہ راست محاذ آرائی، جو دمشق میں ایران کے قونصل خانے پر اسرائیل کے حملے سے شروع ہوئی، یہیں رک سکتی ہے۔

ایسا ناممکن نہیں۔ خود تہران کو بظاہر امید تھی کہ گذشتہ ہفتے اسرائیل پر اس کا فضائی حملہ حتمی ہوگا، حالاں کہ وہ واضح طور پر ناکام رہا۔

اس صورت میں اسرائیل اور ایران کے درمیان تنازع پہلے مقام پر واپس آ سکتا ہے۔ یہ لڑائی بنیادی طور پر جنوبی لبنان، شام اور یمن میں حوثیوں جیسے ایرانی آلہ کار کا کام ہے جو مختلف دائرہ کار اور محدود طاقت کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

یہ حالات حیرت انگیز طور پر یہ بھی واضح کر سکتے ہیں کہ اسرائیل غزہ میں اپنی لڑائی توقع کے مطابق زیادہ مخالفت کا سامنا کیے بغیر لڑنے میں کیوں کامیاب رہا ہے۔

اتحادیوں اور مخالفین کی تمام تر مذمت کے باوجود خود خطے میں اسرائیل کا فوجی طور پر مقابلہ کرنے کے معاملے میں  بہت کم جوش و خروش پایا جاتا ہے۔

کسی بھی ہمسایہ ملک نے اسرائیل کے سلامتی کے نظام کی خامیوں کا فائدہ نہیں اٹھایا جو سات اکتوبر کو حماس نے بے نقاب کیں۔

مقبوضہ مغربی کنارے میں کوئی بغاوت نہیں ہوئی، حالاں کہ فلسطینیوں پر آبادکاروں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جنوبی لبنان سے حزب اللہ کے حملے تقریباً ماضی کی سطح پر رہے ہیں۔

ایران کی جانب سے پاکستان سمیت سرحدوں کی دوسری طرف مخالف گروپوں پر نسبتا چھوٹے حملے ہوئے ہیں جو ایران کے مقامی سطح کے مفادات کی عکاسی کرتے ہیں، لیکن دمشق کے قونصل خانے پر حملے تک اس نے نہ صرف اسرائیل پر براہ راست حملہ نہیں کیا تھا، بلکہ آغاز میں کہہ دیا تھا اس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔

کوئی بھی وسیع تر لڑائی شروع کرنے یا اس میں الجھنے میں ہچکچاہٹ صرف ایران تک محدود نہیں۔

خطے کے بڑے ممالک مصر، ترکی اور سعودی عرب اس معاملے میں ایک جانب ہیں اور اطلاعات کے مطابق اردن نے اسرائیل جانے والے ایرانی ڈرونز کو مار گرانے میں مدد کی۔

چھوٹے ملک، خاص طور پر قطر، فائر بندی کے معاہدے میں ثالثی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے غزہ کے مکین مزید مشکلات کا سامنا کرنے سے بچ جائیں گے اور حماس کے پاس موجود باقی ماندہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی ہو گی۔

ان کوششوں کے اب تک خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے لیکن وہ مکمل طور پر ناکام بھی نہیں ہوئیں اور نہ ہی ان کی وقتاً فوقتاً ہونے والی ناکامی کشیدگی میں کسی قابل ذکر اضافے کا سبب بنی۔

جہاں تک یکم اپریل سے پہلے غزہ پر اسرائیلی حملوں کے دائرے میں توسیع نہ ہونے کا تعلق ہے تو اس کی ایک وضاحت خطے کی تقریباً ہر ریاست کی کمزوری ہو سکتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ دیگر بڑی طاقتیں یعنی روس اور چین اس کے برعکس مصروف عمل ہیں۔ اس سال ہونے والا صدارتی انتخاب امریکی انتظامیہ پر داخلی دباؤ ہے۔

درحقیقت حالیہ مہینوں کے سب سے نمایاں پہلوؤں میں سے ایک غزہ پر حملوں کے بارے میں امریکی مؤقف ہے۔ اسرائیل کی مکمل حمایت سے لے کر فوری فائر بندی کے مطالبات میں شامل ہونا۔

شکر ہے کہ یہ تمام عوامل وسیع تر جنگ میں رکاوٹ ہیں لیکن دو زبردست دلائل موجود ہیں کہ کوئی ملک اپنی سلامتی سے غفلت نہ برتے۔

پہلی دلیل یہ ہے کہ حادثات ہوتے رہتے ہیں اور اسرائیل کا شام میں ایران کے سفارتی مشن پر بلا سوچے سمجھے حملہ اشتعال انگیز کارروائی تھی جس کا جواب دینے کے علاوہ ایران کے پاس کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسرائیل کی جانب سے اسے اپنی بقا کی جنگ کے حصے کے طور پر دیکھنے سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوتی کہ دیگر ممالک کی طرح ایران کے نزدیک بھی یہ ایک بنیادی سفارتی اصول کی خلاف ورزی ہے اور اگر اس کی سزا نہ دی جائے تو اس کے اثرات سب پر مرتب ہوں گے۔

اس طرح کے واقعات جتنے زیادہ ہوں گے غلط اطلاعات، حد سے زیادہ رد عمل اور براہ راست جھڑپوں کا خطرہ اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے بڑی جنگ چھڑ جاتی ہے۔

دوسری دلیل یہ ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان براہ راست فوجی محاذ آرائیاں اگرچہ اب تک محدود ہیں لیکن یہ یاد دلاتی ہیں کہ دونوں ممالک ایک دوسرے سے گہرے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔

یہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ وسیع تر خطے کو اتنا بڑا تصور کرنا مشکل ہو گیا ہے جہاں وہ دونوں ایک ساتھ پرامن طور پر رہ سکیں۔

اسرائیل اب بھی ماننا ہے کہ ایران اسے نقشے سے مٹا دینا چاہتا ہے جبکہ ایران اسرائیل کو جوہری طاقت بننے کی بنیادی وجہ سمجھتا ہے۔

نظریات، نفسیات اور علاقائی تنازعات کی وجہ سے اس طرح کی لڑائی اکثر فوجی محاذ آرائی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

دونوں طرف کے اتحادی اور آلہ کار مسلح گروپ اس میں شامل ہو جاتے ہیں جس سے حادثات یا غیر ارادی جھڑپوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اگر وقتی طور پر براہ راست جنگ ٹلی ہوئی ہے، چاہے اس کی وجہ امریکی دباؤ ہو یا ایران کی جانب سے اپنی کمزور کا درپردہ اعتراف، یا دوسری طاقتوں کا کہیں اور مصروف ہونا، تو ہو سکتا ہے کہ اگلی بار ایسا نہ ہو۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ