عالمی و اندرونی دباؤ کے باوجود، کیا اسرائیل ایران پر حملہ کرسکتا ہے؟

اسرائیل پہلے ہی غزہ میں سات ماہ کی جنگ میں پھنسا ہوا ہے۔ اس کا ایران کی کی کم از کم پانچ لاکھ سے زائد پر مشتمل فوج کے خلاف لڑنے کا بہت کم امکان ہے۔

اس تصویر میں اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام آئرن ڈوم کی بیٹری دکھائی گئی ہے جو مقبوضہ بیت المقدس کے قریب 15 اپریل 2024 کو نصب ہے (اے ایف پی)

اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایران کی جانب سے گذشتہ ہفتے اسرائیل کی جانب داغے گئے سینکڑوں ڈرونز اور میزائلوں میں سے 99 فیصد سے زیادہ کو مار گرایا لیکن اس کے باوجود اسرائیلی رہنماؤں کا عوامی سطح پر اصرار ہے کہ ان کے پاس ایران کو جواب دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

امریکی تھنک ٹینک فارن پالیسی کے مطابق یہ وہ پیغام تھا جو اسرائیلی وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے مبینہ طور پر امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کو دیا تھا، باوجود اس کے کہ بائیڈن انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں بشمول خود صدر جو بائیڈن نے اسرائیل پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے ردعمل میں محتاط رہے۔

بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو بھی بتایا کہ امریکہ ایران پر براہ راست اسرائیلی حملے میں حصہ نہیں لے گا اور نہ ہی اس کی حمایت کرے گا۔

تو کیا اسرائیل پھر بھی جواب دے گا؟

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق خود اسرائیلوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ تحمل کے بین الاقوامی دباؤ میں اضافے کے باوجود نیتن یاہو ایران کے پہلے براہ راست حملے کا جواب دیں گے یا نہیں۔

ایک سرکاری ذرائع نے بتایا کہ نیتن یاہو نے پیر کو 24 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں دوسری بار اپنی جنگی کابینہ کا اجلاس طلب کیا تاکہ ایران کے حملے کے جواب کا جائزہ لیا جا سکے۔

اسرائیلی فوج کے سربراہ ہرزی حلوی نے کہا ہے کہ اسرائیل اس کا جواب دے گا تاہم انہوں نے کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

انہوں نے جنوبی اسرائیل کے نیواتم ایئر بیس پر کہا ’اسرائیلی علاقے میں اتنے سارے میزائلوں، کروز میزائلوں اور ڈرونز کے حملے کا جواب دیا جائے گا۔‘

جوناتھن لارڈ ایک سابق امریکی دفاعی عہدیدار اور کانگریس کے معاون ہیں جو اب واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فار اے نیو امریکن سکیورٹی (سی این اے ایس) میں مشرق وسطیٰ کے سکیورٹی پروگرام کے ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو ممکنہ طور پر جواب دینا ہوگا لیکن فوری طور پر جواب دینے کے لیے اس پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔ انہیں جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

اسرائیل پہلے ہی غزہ میں سات ماہ سے جاری جنگ میں پھنسا ہوا ہے۔ اس کا ایران کی کی کم از کم پانچ لاکھ سے زائد پر اہلکاروں مشتمل فوج کے خلاف لڑنے کا بہت کم امکان ہے۔ چیتھم ہاؤس کے ایسوسی ایٹ فیلو نومی بار یاکوف نے الجزیرہ چینل کو بتایا کہ نیتن یاہو کا غزہ کی جنگ سے توجہ ہٹانے اور امریکہ اور دیگر مغربی اتحادیوں کو مشرق وسطیٰ میں واپس گھسیٹنے کا منصوبہ ہے۔

جوہری خدشات

ادھر اقوام متحدہ کے نگران جوہری ادارے کے سربراہ نے اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر ممکنہ حملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے اسرائیلی فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ہرزی حلوی کے بیان کے بعد یہ بات کہی۔

ایران کے نائب وزیر خارجہ علی باقری کانی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ان کا ملک اسرائیل کے کسی بھی تازہ حملے کا چند سیکنڈوں میں جواب دے گا۔

اسرائیل کی جانب سے ممکنہ جوابی حملے کے حوالے سے قیاس آرائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن اب توجہ تہران کی جوہری تنصیبات کی جانب مبذول ہو گئی ہے جنہیں اتوار کو 'سکیورٹی خدشات' کی وجہ سے بند کر دیا گیا تھا۔

یہ تنصیبات سمواور کو دوبارہ کھول دی گئیں تھیں جس کے بعد اقوام متحدہ کی بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے کہا ہے کہ ان کے باقاعدہ معائنے منگل سے دوبارہ شروع ہوں گے۔

ایرانی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے کے امکان کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا: ’ہم ہمیشہ اس امکان کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں۔ ہم انتہائی تحمل پر زور دیتے ہیں۔‘

اندرونی و بیرونی دباؤ

اسرائیل میں رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کی مقبولیت انتہائی کم ہے۔ نیتن یاہو کے اس دعوے پر اپنی ساکھ قائم کرنے کے بعد کہ صرف وہ اور ان کی لیکوڈ پارٹی اسرائیلیوں اور ان کے خاتمے کے درمیان کھڑے ہیں، 7 اکتوبر کو حماس کے اچانک حملے نے ان کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

کارنیگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس اور رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ میں مشرق وسطیٰ کی سلامتی سے متعلق ایک اتھارٹی ایچ اے ہیلیئر نے کہا کہ اسرائیل کے آپشنز سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں کہ نیتن یاہو، جو داخلی اور بین الاقوامی سطح پر مشکلات کا شکار ہیں، ایرانی حملے کے بعد تل ابیب کے لیے مغربی ہمدردی کا فائدہ اٹھانے کا انتخاب کریں گے۔

7 اکتوبر کے بعد سے، غزہ میں جنگ سے نمٹنے کے خلاف مظاہروں میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اسرائیل کے باقی قیدیوں کی رہائی میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔

ایران نے یہ حملہ یکم اپریل کو دمشق میں اپنے سفارت خانے کے احاطے پر اسرائیلی فضائی حملے کے جواب میں کیا تھا اور اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ وہ مزید کشیدگی میں اضافہ نہیں چاہتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ اس حملے میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی اور محدود نقصان ہوا لیکن اس سے دیرینہ دشمنوں کے مابین کھلی جنگ کے خدشات میں اضافہ ہوا ہے اور ان خدشات کو تقویت ملی ہے کہ غزہ کی جنگ کی جڑیں پھیل رہی ہیں۔

اکتوبر میں غزہ میں جارحیت کے آغاز کے بعد سے لبنان، شام، یمن اور عراق میں اسرائیل اور ایران سے وابستہ گروہوں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے چار فوجی رات گئے لبنانی علاقے کے سینکڑوں میٹر اندر زخمی ہوئے۔

یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزف بوریل نے ہسپانوی ریڈیو سٹیشن اونڈا سیرو کو بتایا کہ 'ہم کھائی کے کنارے پر ہیں اور ہمیں اس سے دور جانا ہوگا۔ ہمیں بریک اور ریورس گیئر لگانا ہوگا۔‘

فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں، جرمن چانسلر اولاف شولز اور برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے بھی اسی طرح کی اپیلیں کی ہیں۔ واشنگٹن اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش نے بھی تحمل سے کام لینے کی اپیل کی ہے۔

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے پیر کو یہ بتانے سے انکار کیا کہ آیا بائیڈن نے ہفتے کی رات ہونے والی بات چیت میں نیتن یاہو پر زور دیا تھا کہ وہ ایران کو جواب دینے میں تحمل کا مظاہرہ کریں۔

کربی نے ایک بریفنگ میں کہا کہ ’ہم ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے۔ ہم علاقائی تنازعہ نہیں چاہتے۔ یہ اسرائیل پر منحصر ہے کہ وہ کیا اور کیسے جواب دے گا۔‘

روس نے اپنے اتحادی ایران پر کھلے عام تنقید کرنے سے گریز کیا ہے لیکن تحمل برتنے پر بھی زور دیا ہے۔ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ مزید کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔

چین نے کہا کہ اسے یقین ہے کہ ایران اپنی خودمختاری اور وقار کا تحفظ کرتے ہوئے ’صورت حال کو اچھی طرح سنبھال سکتا ہے اور خطے کو مزید افراتفری سے بچا سکتا ہے۔‘

چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے پیر کو اپنے ایرانی ہم منصب حسین امیر عبداللہیان سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چین علاقائی اور ہمسایہ ممالک کو نشانہ نہ بنانے پر ایران کے اصرار کو سراہتا ہے۔

جی سیون کا ایران پر پابندیوں پر غور

برطانوی وزیر اعظم رشی سنک نے کہا ہے کہ سات بڑی جمہوریتوں کا گروپ ایران کے خلاف مربوط اقدامات کے پیکیج پر غور کر رہا ہے۔

سنک نے پارلیمنٹ میں کہا، ’میں نے اپنے جی سیون ساتھی رہنماؤں سے بات کی، ہم اس حملے کی مذمت میں متحد ہیں۔‘

اٹلی نے، جس کے پاس جی سیون کی صدارت ہے، کہا ہے کہ وہ نئی پابندیوں پر غور کے لیے تیار ہے اور تجویز دی ہے کہ کوئی بھی نیا قدم افراد کو نشانہ بنائے گا۔ اطالوی وزیر خارجہ انتونیو تاجانی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ جی سیون کے تمام رکن ممالک کو نئی پابندیوں کی حمایت کرنی ہوگی۔

ایران کے حملے کے نتیجے میں فضائی سفر میں خلل پڑا ہے اور کم از کم ایک درجن ایئرلائنز نے پروازیں منسوخ کر دی ہیں یا ری روٹ کی ہیں۔ یورپ کے ایوی ایشن ریگولیٹر نے ایئر لائنز کو اسرائیلی اور ایرانی فضائی حدود میں احتیاط برتنے کا مشورہ دیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا