میڈیا انفارمیشن لٹریسی سب کے لیے

پاکستان میں کئی ادارے صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو میڈیا انفارمیشن لٹریسی کی تربیت دے رہے ہیں لیکن اس کی ضرورت سب کو ہے۔

میڈیا انفارمیشن لٹریسی ہمیں وہ علم اور مہارتیں سکھاتی ہے جو میڈیا کا مؤثر اور ذمہ دارانہ استعمال کرنے کے لیے ضروری ہیں (انواتو)

آج کی دنیا مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کی وبا کا شکار ہے۔ یہ وبا صرف سوشل میڈیا تک محدود نہیں بلکہ مین سٹریم میڈیا بھی اس میں مبتلا ہے۔ سب سے پہلے خبر پہنچانے کی دوڑ میں معتبر ادارے بھی غیر مصدقہ اور گمراہ کن خبریں عوام تک پہنچا رہے ہیں۔

ہم نے کورونا کی عالمی وبا، رواں سال پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی، اور حالیہ سیلابی تباہ کاریوں کے دوران گمراہ کن معلومات کے باعث ہونے والے نقصانات اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ ہم ہر سطح پر لوگوں کو میڈیا انفارمیشن لٹریسی کی تعلیم دیں تاکہ وہ گمراہ کن معلومات کا شکار ہونے کی بجائے ان سے لڑنا سیکھیں۔

میڈیا انفارمیشن لٹریسی ہمیں وہ علم اور مہارتیں سکھاتی ہے جو میڈیا کا مؤثر اور ذمہ دارانہ استعمال کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ یہ تعلیم میڈیا میں کام کرنے والے لوگوں کے لیے جتنی اہم ہے اتنی ہی میڈیا استعمال کرنے والوں کے لیے بھی اہم ہے۔

آج کے تیز رفتار دور میں لوگ مین سٹریم میڈیا کے ساتھ ساتھ الگورتھم پر مبنی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے بھی معلومات حاصل کر رہے ہیں۔

ان پلیٹ فارم کے الگورتھم سب سے زیادہ دیکھے یا شیئر کیے جانے والے مواد کو زیادہ نمایاں کر کے پیش کرتے ہیں چاہے وہ سچ ہو یا جھوٹ۔ جن لوگوں کو ان پلیٹ فارمز کو ذمہ داری سے استعمال کرنا نہ آتا ہو وہ ان پر موجود ہر معلومات کو سچ سمجھ کر آگے شئیر کر دیتے ہیں اور جو ان پلیٹ فارمز کا بہت اچھا استعمال جانتے ہوں وہ ان کے الگورتھمز اور فیچرز کی مدد سے غلط اور گمراہ کن معلومات لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔

مصنوعی ذہانت نے ان پلیٹ فارمز پر غلط گمراہ کن معلومات کے پھیلاؤ میں مزید اضافہ کیا ہے۔

آئے دن ہمارے سامنے مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنا ہوا ایسا مواد آتا ہے جو بالکل سچ لگ رہا ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ اس مواد پر یقین کر کے پریشان ہو جاتے ہیں اور نقصان کا شکار ہوتے ہیں۔ اگرچہ اس میں سے بہت سا مواد دیکھنے اور سننے میں جعلی محسوس ہوتا ہے لیکن اگر کسی کے دل میں کسی موضوع کے بارے میں پہلے ہی منفی خیالات یا تعصبات موجود ہوں تو وہ ایسے مواد کو بھی سچ مان لیتا ہے۔

پاکستان میں کئی ادارے صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو میڈیا انفارمیشن لٹریسی کی تربیت دے رہے ہیں لیکن اس کی ضرورت سب کو ہے، اس سلسلے میں جامعات ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستانی جامعات میں موجود ابلاغِ عامہ کے شعبہ جات کو اپنے کورس ورک میں میڈیا لٹریسی کو شامل کرنے کی ہدایات دی ہوئی ہیں۔

بہت سی جامعات میں ایسے شعبہ جات میڈیا لٹریسی پر ایک علیحدہ کورس پڑھا رہے ہیں۔ تاہم، کچھ میں یا تو یہ کورس ابھی بن رہا ہے یا دیگر کورسز میں اس موضوع پر کچھ لیکچر دیے جا رہے ہیں۔ لیکن ابلاغِ عامہ کے پروفیسروں کا کہنا ہے کہ ان کے شعبہ جات کے طلبہ اس بارے میں کسی حد تک معلومات رکھتے ہیں مگر دیگر شعبہ جات کے طلبہ کو اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔ ان تک یہ تعلیم پہنچانا نہایت ضروری ہے۔

ایسا کرنا مشکل بھی نہیں ہے۔ پاکستانی جامعات میں انڈر گریجویشن کا پہلا سال تقریباً ایک جیسا ہوتا ہے۔ اس سال میں طلبہ کو بنیادی مضامین جیسے انگریزی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، اسلامیات اور پاکستان اسٹڈیز پڑھائے جاتے ہیں۔ اسی سال کے نصاب میں میڈیا انفارمیشن لٹریسی کا ایک کورس شامل کیا جا سکتا ہے، جسے جامعہ کی ابلاغِ عامہ کی فیکلٹی پڑھا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر جامعہ اپنی سماجی ذمہ داری سمجھتے ہوئے موسمِ گرما کی چھٹیوں میں بچوں اور بڑوں کے لیے چند ہفتوں کا کورس بھی متعارف کروا سکتی ہے۔

علاوہ ازیں ہر جامعہ کی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پر لوگوں کے لیے مفت اور اپنی سہولت کے حساب سے مکمل کرنے والا ایک مختصر سا کورس بھی متعارف کروایا جا سکتا ہے۔ ان کورسز میں لوگوں کو مس انفارمیشن، ڈس انفارمیشن اور ان کی وجہ سے ہونے والے نقصان بارے بتایا جا سکتا ہے۔

انٹرنیٹ کا محفوظ استعمال اور اس پر موجود معلومات کی تصدیق کرنے کے طریقے سکھائے جا سکتے ہیں اور سب سے ضروری ایسے سورسز بتائے جا سکتے ہیں جہاں سے انہیں مختلف موضوعات پر مصدقہ معلومات مل سکتی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے میڈیا انفارمیشن لٹریسی پر کافی کام کیا ہے، ہمیں نئے سرے سے آغاز کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم ان کے کام کو ہی اپنے اداروں میں لوگوں کی آگاہی اور تربیت کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

جامعات میں موجود ابلاغِ عامہ کی فیکلٹی اس سلسلے میں مدد فراہم کر سکتی ہے اور وہاں سے یہ کورسز کالجوں اور اسکولوں تک منتقل کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف اداروں کے ساتھ شراکت داری کر کے ان کے ملازمین کو ایک روزہ یا سہ روزہ ٹریننگز دی جا سکتی ہیں۔

یہ سب اقدامات ہنگامی بنیادوں پر اٹھانا ضروری ہیں۔ ہم آئے روز نئے مسائل کا سامنا کرتے ہیں اور ہر مسئلے کے ساتھ مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کی وبا بھی پھیلتی ہے جو ان مسائل کو مزید سنگین بنا دیتی ہے۔ اس وبا سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے لوگوں کو ساتھ ملائیں۔ تبھی ہم اس وبا اور دیگر چیلنجز کا مؤثر طور پر مقابلہ کر سکیں گے۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ