کہانی کا آغاز عباسی دور کے عظیم دارالحکومت بغداد میں خلیفہ ہارون الرشید کے محل سے ہوتا ہے۔ فرانسیسی مؤرخین کے مطابق یہ سال 807 عیسوی تھا، اگرچہ تاریخ میں معمولی فرق ممکن ہے۔ خلیفہ ہارون الرشید کے خصوصی سفیر اور ذاتی نمائندے عبداللہ کی قیادت میں ایک سفارتی قافلہ جرمنی کے شہر لا چیپل میں واقع شارلیمان کے محل کی جانب روانہ ہونے والا تھا، جو آج کے بلجیم اور ہالینڈ کی سرحد کے قریب واقع ہے۔
روانگی سے پہلے ہارون الرشید نے اپنے نمائندے عبداللہ کو اہم ہدایات دیں اور ایک نایاب، بے مثال تحفہ ان کے سپرد کیا۔ یہ ایسا تحفہ تھا جو قدیم دنیا کے روایتی تحائف سے بالکل مختلف تھا۔ اس دور میں بادشاہوں کے درمیان عام طور پر سونے، ہیروں، باندیوں، غلاموں، ہاتھیوں، زرافوں، پرندوں، سانپ کی کھالوں، بارود، ریشم، مسودات، مصالحوں اور عطر کا تبادلہ ہوتا تھا۔ مگر اس بار معاملہ مختلف تھا۔
آج سے 12 صدیاں قبل کے اس دور میں، بغداد سے ایک لا چیپل تک کا سفر چار سے چھ ماہ کے درمیان ہوتا تھا، کبھی اونٹوں کی پیٹھ پر، کبھی بحری جہازوں پر، کبھی گھوڑوں اور خچروں پر اور کبھی پیدل بھی۔
قافلہ اپنے سامان میں ایک آبی گھڑیال لیے روانہ ہوا جو شاید انسانی تہذیبوں کی پہلی عملی اور جدید آبی گھڑی تھی۔
بغداد کے سائنس دانوں، حکیموں اور کاریگروں نے یہ عجیب و غریب مشین محض تماشے کے لیے نہیں بنائی تھی۔ یہ ایجاد اس بات کا ثبوت تھی کہ ہارون الرشید کا معاشرہ علم، فن، فکر اور سائنس کی ایک نئی منزل میں داخل ہو چکا تھا۔ جب کوئی تہذیب وقت کے فلسفے کو سمجھنے لگے، منٹ، سیکنڈ اور گھنٹوں میں وقت کو تقسیم کرنے لگے تو سمجھ لیں کہ وہ عقل، ترتیب اور تنظیم کے اعلیٰ مرحلے میں قدم رکھ چکی ہے۔
یہ وہ دور تھا جب انسان زراعت پر مبنی قدیم کیلنڈروں سے آگے بڑھ کر وقت کے گہرے فلسفے پر غور کرنے لگا تھا، زندگی اور موت کے بیچ فاصلے کی پیمائش، رفتار اور سفر کے رشتے کو سمجھنے لگا تھا۔ گھڑیال کی ایجاد عقل کی بیداری اور تہذیبی تبدیلی کی علامت تھی۔
اس وقت بغداد دنیا کا روشن ترین شہر تھا۔ ہارون الرشید کے دور میں یہ تجارت اور فکر کا عالمی گہوارہ تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب بیت الحکمت میں یونانی، ہندوستانی اور چینی علوم کا ترجمہ اور تحقیق ہوتی تھی، وہی نظام آگے چل کر مامون الرشید کے دور میں مزید فروغ پاتا ہے۔
آبی گھڑیال کی ایجاد کسی اتفاق یا حادثے کا نتیجہ نہیں تھی۔ یہ اس آزاد فکر کا نتیجہ تھی جس نے علم، مکالمے اور اجتہاد کو فروغ دیا۔ گھڑی ایجاد کرنے والا ذہن تقدیر پرستی اور انتشار کا نہیں، بلکہ نظم، تحقیق اور فلسفے کا حامل ہوتا ہے، وہ وقت کو منظم کر کے زندگی کو بہتر بنانے کا خواہش مند ہوتا ہے۔
ہارون الرشید کی جانب سے شارلیمان کو آبی گھڑیال بھجوانا محض ایک تحفہ نہیں تھا، بلکہ ایک تہذیبی اور سفارتی اعلان تھا، ایک ایسا پیغام جسے ہمیں آج اپنے خطے کی فکری زوال کے تناظر میں سمجھنا چاہیے، جہاں سائنسی سوچ کی جگہ انتہا پسندی، کاہلی اور سلفیت نے لے لی ہے۔
آج جب ہمارے معاشروں میں وقت کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے، ہمیں اپنے ماضی میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ ہم نے ’ٹائمنگ‘ اور تنظیم کے فلسفے کو کب اور کیوں نظرانداز کر دیا۔
اسی تہذیبی بیداری کے اثرات میں اندلس (موجودہ سپین) بھی شامل تھا، جہاں بربر حکمرانوں اور دانشوروں نے وقت کی تنظیم کو موسیقی تک پھیلا دیا۔ انہوں نے موسیقی کی نوبتوں کو وقت کے مطابق ترتیب دیا—ہر گھنٹے کی اپنی مخصوص دھن۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ وقت کے فلسفے نے ان کے جمالیاتی اور سماجی شعور کو گہرائی سے متاثر کیا تھا۔
شارلیمان کا خوف
جب ہارون الرشید کے سفیر نے آبی گھڑیال شارلیمان کے سامنے پیش کیا اور گھڑیال کی سوئیاں حرکت کرنے لگیں، پانی ٹپکنے لگا، دھاتیں بجنے لگیں تو شارلیمان خوفزدہ ہو گیا۔ اسے لگا کہ اس عجیب مشین کے اندر کوئی جن یا روح ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس نے فوراً گھڑیال کو ایک کمرے میں بند کروا دیا اور کئی دن تک دروازے کے پیچھے کھڑے ہو کر اسے دیکھتا رہا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ اس میں کوئی شیطانی طاقت نہیں، تب جا کر وہ پرسکون ہوا۔
مگر کہانی کا دلچسپ حصہ یہ ہے کہ شارلیمان کے بعد اس کی نسلوں نے اس تحفے کو گہرے غور و فکر کے ساتھ قبول کیا۔ انہوں نے اس گھڑیال سے سیکھا کہ وقت ایک عظیم سرمایہ ہے، وہ سرمایہ جو تہذیبوں کا رخ بدل دیتا ہے۔
یہی لمحہ یورپ میں سائنسی بیداری اور فکری انقلاب کی بنیاد ثابت ہوا—ایک ایسا سفر جس نے یورپ کو تاریکیوں سے نکال کر ترقی کی راہ پر ڈال دیا۔
بدقسمتی سے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی اقوام وقت کے فلسفے سے بتدریج دور ہوتی گئیں۔ عقل کی جگہ توہم پرستی نے لے لی، تحقیق کی جگہ تقلید نے۔ معاشرت غیر یقینی، جمود اور تقدیر پرستی کے دائرے میں آتی گئی۔ یوں خطہ ’جائز و ناجائز‘ کی تنگ و محدود سوچ میں الجھ گیا اور ذہنی ترقی رک گئی۔
اور جس وقت ہم درستگی سے نکل کر تقدیر، توکل اور کاہلی کی طرف گامزن ہوئے، مغرب نے وقت کی پابندی، چھان بین اور عمل کے میدان میں قدم رکھا۔
ہارون الرشید کا شارلیمان کو دیا گیا تحفہ صرف کہانی نہیں، بلکہ اس کے پیچھے تاریخی اور علمی اہمیت چھپی ہے۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ عربیہ