شہزادی کا خط جس نے مسلمانوں کو اندلس کا راستہ دکھا دیا

مسلمانوں کو سپین پر حملے کی تحریک ایک ہسپانوی شہزادی کے خط کی وجہ سے ملی۔ وہ کون تھیں اور ان کا مقصد کیا تھا؟

سپین کے بادشاہ راڈرک 711 میں طارق بن زیادہ کے مقابلے کے لیے تیاری کرتے ہوئے (پبلک ڈومین)

یہ 710 عیسوی کا ایک دن تھا۔ سپین کے دارالحکومت طلیطلہ میں صبح کا آغاز معمول کے مطابق ہو رہا تھا۔ چونکہ سخت سردی کے دن تھے اس لیے بادشاہ راڈرک کے محل میں خدام کی چہل پہل بھی ابھی شروع نہ ہوئی تھی۔

اسی اثنا میں ایک غلام حرم سرا سے گھوڑے پر سوار نکلا اور تیزی سے جنوب کی جانب اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔ سرپٹ گھوڑا دوڑاتے اس نوجوان سپاہی کی رکاب میں ایک پریشان شہزادی کا خط بندھا تھا، جس نے وعدہ کیا تھا کہ اگر یہ خط جلد اس کے باپ تک پہنچ جائے تو وہ نوجوان سپاہی کو فوج میں ایک اہم عہدہ دلوا دیں گی۔

یہ شہزادی فلورینا تھیں جو ایک بازنطینی گورنر کاؤنٹ جولیان کی بیٹی اور سپین کے سابق بادشاہ وٹیکا کی نواسی تھیں۔

ان کے باپ کی حکومت آبنائے جبرالٹر کے پار سیوطا کے شہر میں تھی جو براعظم شمالی افریقہ میں بازنطینی سلطنت کی آخری نشانی سمجھا جاتا تھا۔ باقی تمام علاقے یعنی مصر و مراکش پر عربوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ اس شہر پر بھی عربوں نے کئی حملے کیے تھے لیکن کاؤنٹ جولیان کی ثابت قدمی کے باعث یہ شہر ہنوز عرب فوجوں کی دست برد سے محفوظ تھا۔

شہر پر تازہ حملہ موسیٰ بن نصیر کی جانب سے کیا گیا تھا جنہیں کچھ عرصہ قبل خلیفہ ولید بن عبدالملک نے یہاں کا گورنر تعینات کیا تھا۔ اندلسی تاریخ پرمستند سمجھی جانے والی کتاب ’نفح الطیب‘ کے مصنف علامہ مقری لکھتے ہیں:

’موسیٰ کی فوج نے ان شہروں کا رخ کیا جو ساحل بحر پر واقع تھے اور شاہ اندلس کے عمال ان پر حکمرانی کرتے تھے۔ ان شہروں کا دارالحکومت سیوطہ تھا اور یہیں یولیان نامی ایک حاکم رہتا تھا۔ موسیٰ نے اس سے جنگ چھیڑ دی اور اس نے بھی ایسی قوت و شجاعت کے ساتھ مقابلہ کیا کہ موسیٰ اس کو زیر نہ کر سکے اور طنجہ واپس آ گئے۔‘

لیکن چند دن بعد جب دارالحکومت سے ایک نوجوان سپاہی شہزادی فلورینا کا خط لے کر پہنچا تو کاؤنٹ جولیان کے غضب کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ انہوں نے فوراً شہر کو عربوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا اور خود شہنشاہ راڈرک کے دربار کی طرف روانہ ہو گئے۔

خط میں کیا لکھا تھا؟

مؤرخین کے مطابق اس زمانے میں یہ رواج چلا آتا تھا کہ شرفا اپنی بیٹیوں کو بادشاہ کے دربار میں تعلیم کی غرض سے بھیجا کرتے تھے۔ یوں نوجوان شہزادیاں نا صرف لکھنے پڑھنے اور شاہی آداب سے واقف ہو جاتی تھیں بلکہ ان کے لیے کوئی مناسب رشتہ بھی مل جاتا تھا۔ یہ رسم اکابر سلطنت کے درمیان موافقت پیدا کرنے کے لیے جاری کی گئی تھی۔ چنانچہ اسی باعث کاؤنٹ جولیان نے اپنی نورِ نظر فلورینا کو طلیطلہ کے محل میں رہنے کی اجازت دی تھی۔

تاہم اب تخت پر بادشاہِ اندلس نہیں بلکہ ان کے ایک جرنیل راڈرک کا قبضہ تھا جنہوں نے آخری اندلسی بادشاہ کے مرنے کے بعد ان کی اولاد کو ادھر ادھر بھگا کر اپنی حکومت قائم کر لی تھی۔ برطانوی مؤرخ سٹینلے لین پول کے مطابق: ’اگرچہ شاہی حمیت کا تقاضہ یہ تھا کہ راڈرک فلورینا کی اپنی بیٹی کی طرح حفاظت کرتے لیکن فلورینا کی شہرہ آفاق خوبصورتی نے راڈرک کی نیت میں کھوٹ ڈال دیا اور انہی جذبات سے مغلوب ہو کر راڈرک نے فلورینا کو بے آبرو کر دیا۔‘

اگرچہ راڈرک نے فلورینا کو ڈرا دھمکا کر خاموش رہنے کا حکم دیا تھا لیکن شہزادی نے ایک خط لکھ کر اپنے باپ کو اس واقع کی اطلاع دے دی۔

راڈرک کی خواہش اور افریقی باز

علامہ مقری کے مطابق اس خط کے ملنے پر جولیان سخت سردی میں ایک کشتی پر سوار ہو کر آبنائے جبرالٹر کے پار پہنچے اور وہاں سے طلیلطہ کا رُخ کیا۔

بادشاہ راڈرک نے اس جاڑے میں جولیان کو آتے دیکھا تو انہیں شدید حیرت ہوئی۔ جولیان نے اپنے علاقے کے حالات بیان کرنے کے بعد درخواست کی کہ ان کی بیوی اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے سخت بے چین ہے، اس لیے فلورینا کو محل سے رخصت کی اجازت دی جائے۔

بادشاہ نے اپنے گورنر کا یہ اصرار دیکھ کر شہزادی کو جانے کی اجازت دے دی لیکن تاکید کی کہ وہ بادشاہ کا راز کسی پر ظاہر نہ کریں۔ اس کے علاوہ بادشاہ نے اپنے ضمیر کی خجالت سے مغلوب ہو کر جولیان پر بھی خوب نوازشیں کیں اور اہم تر معاملات پر ان سے مشورے لیے۔

جب باپ بیٹی کی روانگی کا وقت آیا تو بادشاہ نے جولیان سے خواہش کی کہ انہیں افریقہ سے ایک خاص قسم کے شکاری باز بھیجے جائیں۔ جولیان نے جواب دیا، ’خدا کی قسم اگر میں زندہ رہا تو شہنشاہِ معظم کے لیے ایسے باز لے کر آؤں گا جو حضور نے پہلے کبھی نہ دیکھے ہوں گے۔‘

یہ ذو معنی جواب دینے کے بعد جولیان اور فلورینا سیوطہ کی طرف روانہ ہو گئے۔

 موسیٰ بن نصیر سے ملاقات

تاریخ دان ڈوزی کے مطابق جولیان نے اس واقعے کے بعد عربوں سے اپنے لیے ایک معاہدہ کرنے کے بعد شہر کے دروازے ان پر کھول دیے۔ انہوں نے موسیٰ بن نصیر سے ملاقات کی اور ان کے سامنے اندلس کی زرخیزی، شادابی اور دولت کے قصے بڑھا چڑھا کر بیان کیے۔ مزید برآں انہیں یقین دلایا کہ حملے کے لیے درکار تمام جہاز بھی جولیان کی جانب سے مہیا کر دیے جائیں گے۔

لین پول لکھتے ہیں کہ جولیان نے طلیطلہ سے واپس آ کر فوراً موسیٰ بن نصیر سے ملاقات کی۔ اگرچہ دونوں سرداروں کی فوجیں کئی دفعہ آپس میں نبرد آزما ہو چکی تھیں لیکن اب جولیان نے موسیٰ کو یقین دلا دیا کہ ان کے درمیان لڑائی ختم ہوچکی ہے اور آئندہ کے لیے وہ عربوں کے دوست ہیں۔

تاہم موسیٰ کو جولیان پر اعتماد کرنے میں تردد تھا۔ اس لیے انہوں نے دمشق میں خلیفہ ولید کو خط لکھ کر اس مہم کے سلسلے میں اجازت طلب کی۔ خلیفہ نے جواب دیا کہ ہماری فوجوں کو اس طرح بحر ذخار کی مصیبت میں نہ ڈالا جائے۔

موسیٰ نے حکومت کو یقین دہانی کروائی کہ اندلس اور افریقہ کے درمیان کوئی بحر ذخار نہیں بلکہ ایک معمولی آبنائے ہے جس کا دوسرا کنارہ ساحل سے دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ خلیفہ نے ایک معمولی فوج کے ساتھ اندلس پر آزمائشی حملہ کرنے کی اجازت دے دی۔

سرکاری اجازت ملنے کے بعد موسیٰ نے 500 آدمیوں کا لشکر تیار کیا اور طریف نامی ایک شخص کو سردار مقرر کیا۔ جولیان نے اس حملہ کے لیے فوج کی رہنمائی کی اور سمندرپار کرنے کے لیے درکار چار کشتیاں بھی مہیا کیں۔

اندلس پہنچ کر ان سپاہیوں نے ساحلی علاقوں پر حملہ کیا اور خوب مالِ غنیمت او ر قیدی عرب فوج کے ہاتھ آئے۔ موجودہ سپین کا ایک ساحلی شہر طریفہ آج بھی اسی بربر غلام کی یادگار ہے۔

طارق بن زیاد کا حملہ اور یونانی النسل عورتیں

طریفہ پر کامیاب حملے کے بعدموسیٰ کو جولیان کی طرف سے اعتماد ہو گیا اور انہوں نے اندلس پر حملہ کے لیے ایک بڑی فوج تیار کی۔ اس لشکر میں سات ہزار سپاہی جمع کیے گئے اور طارق بن زیاد کو ان کا سالار مقرر کر کے 711 عیسوی میں سمندر پار روانہ کر دیا گیا۔

علامہ مقری کے مطابق جولیان نے اس فوج کو تاجروں کے جہازوں میں سوار کر کے اندلس کے ساحل پر اس طرح پہنچا دیا کہ کسی کو خبر تک نہ ہوئی۔ طارق سب سے آخری جہاز میں وہاں پہنچے۔ جس پہاڑ کے پیچھے یہ فوج جمع ہوئی اس کا نام طارق بن زیاد کے نام پر جبل الطارق پڑ گیا۔

اندلسی بادشاہ راڈرک ملک کے شمال میں ایک بغاوت کو کچلنے گئے ہوئے تھے۔ انہیں جب عربوں کے حملے کی خبر ملی تو انہوں نے تمام تر فوجوں کو اکٹھا کر کے پہلے اس خطرے سے نپٹنا ضروری سمجھا۔

یوں ایک لاکھ کی فوج عربوں کے مقابلے کے لیے جمع ہو گئی اور راڈرک کی سربراہی میں طارق بن زیاد سے مقابلے کے لیے بڑھی۔ طارق نے جب اس فوج کی آ مد کی خبر سنی تو موسیٰ سے مزید کمک طلب کی۔ موسیٰ نے مزید پانچ ہزار سپاہی اس مہم کے لیے روانہ کر دیے۔ یوں عرب فوج کی کل تعداد 12 ہزار ہو گئی۔

پھر بھی 12 ہزار کا ایک لاکھ سے مقابلہ کوئی حوصلہ افزا خبر نہیں تھی۔ چنانچہ طارق بن زیاد نے جبل الطارق پر کھڑے ہو کر اپنی فوج کے سامنے ایک ولولہ انگیز تقریر کی جس میں سپاہیوں کو لڑائی پر ابھارا اور انہیں مالِ غنیمت کی امید دلائی۔ علامہ مقری لکھتے ہیں کہ طارق کے ساتھ آنے والے یہ ’سب لوگ نہایت قوی تھے اور مال غنیمت اور جنگ کے بہت حریص تھے۔‘

چنانچہ طارق بن زیاد نے جہاں انہیں اپنی خطرناک صورت حال سے ڈرا کر مشکلات کا سامنا کرنے اور تنگی برداشت کرنے کی نصیحت کی، وہیں اندلس کی دولت اور عورتوں کی تعریف بھی کی۔

علامہ مقری طارق بن زیاد کے حوالے سے لکھتے ہیں، ’اس وقت جو کچھ اس جزیرہ نما میں ہے سب تمہارے ہاتھ میں ہے۔۔۔ امیرالمومنین ولید بن عبدالملک نے تم جیسے بہادر عربوں کا انتخاب کیا ہے اور ان کی مرضی ہے کہ تم اس جزیرہ کے بادشاہوں اور امرا کے داماد بن جاؤ۔ یہاں کے بہادروں اور شہسواروں سے دو دو ہاتھ کر لو۔ تم کو اس جزیرہ میں اعلائے کلمۃ اللہ اور اظہارِ دین اللہ کا ثواب ملے گا اور یہاں کا مال غنیمت خالصتاً تمہارے واسطے ہو گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چنانچہ طارق بن زیاد کی فوج راڈرک سے لڑنے پر آمادہ ہو گئی۔ تاہم جنگ میں فیصلہ کن کردار سابق بادشاہ وٹیکا کے بیٹوں نے ادا کیا جو اس وقت راڈرک کی فوج میں سردار تھے اور درپردہ طارق کے ساتھ مل چکے تھے۔ اگست 711 میں جب جنگ شروع ہوئی تو یہ دونوں سرداران اپنی فوج سمیت طارق سے آن ملے اور بربر فوج نے آسانی سے راڈرک کی فوج کے بخیے ادھیڑ دیے۔

مؤرخین کے مطابق شہنشاہ راڈرک کو میدان جنگ سے فرار ہوتے ہی بنی اور وہ اپنے گھوڑے سمیت کسی دلدل میں غرق ہو گئے۔ ان کی پہچان کے لیے صرف ایک طلائی جوتا ہی ملا جو دلدل کی سطح پر رہ گیا تھا۔ اس کے بعد اندلس کا ملک طارق بن زیاد کے سامنے میدانِ طفلان ہو گیا جسے وہ بآسانی فتح کرتے چلے گئے۔

کتنی حقیقت، کتنا افسانہ؟

شہزادی فلورینا کا قصہ اگرچہ تاریخ کی تمام کتابوں میں درج ہے اور مؤرخین کے نزدیک اندلس کی کوئی بھی تاریخ اس بیانِ واقعہ کے بغیر مکمل نہیں ہوتی، تاہم کچھ مؤرخین اسے فقط ایک قصہ قرار دیتے ہیں۔

اس سلسلے میں ’مورز اِن سپین‘ کے مصنف لین پول کی رائے اہم معلوم ہوتی ہے ۔ وہ یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’میں نے یہ واقعہ اس کی صداقت کی گواہی دیے بغیر نقل کیا ہے۔ فلورینا۔۔۔ اندلسی تاریخ کے ابتدائی باب کا اتنا اہم حصہ ہیں کہ انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اگر یہ قصہ سنی سنائی بات ہو تو بھی ان کے والد یعنی جولیان کی غداری تو عین حقیقت ہے جس میں کسی کو شبہ نہیں ہو سکتا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ