جب ایک مغل شہزادی کی شادی بلتستان میں ہوئی

گل خاتون کس کی بیٹی تھیں؟ اس حوالے سے تاریخ میں کوئی واضح شواہد تو نہیں ملتے تاہم یہ تذکرہ ضرور ہے کہ یہ شادی اکبر بادشاہ کی خواہش پر ہوئی اور شہزادی رشتے میں اکبر کی بھانجی یا بھتیجی تھیں۔

علی شیر خان انچن (دائیں) جن کی شادی شہزادی گل بی بی سے ہوئی تھی۔ تصویر میں ان کے ساتھ ان کی صاحبزادی کنول رانی (بائیں) موجود ہیں جن کی شادی مغل خاندان میں ہوئی تھی (تصویر:قاسم نسیم)

بلتستان کبھی ایک بڑا ملک ہوا کرتا تھا جس میں تبت، چینی ترکستان، لداخ، گلگت اور چترال کے علاقے شامل تھے۔

ان علاقوں میں دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلے آکر ملتے ہیں جن میں قراقرم، ہمالیہ اور کوہ ہندوکش شامل ہیں اس لیے انہیں دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔ آج بھی گلگت بلتستان جانا ہو تو ایک ہی راستہ جاتا ہے۔

لگ بھگ چار صدیاں پہلے اس وقت کے ہندوستان کے دارالحکومت دلی کے لیے بلتستان کتنا شناسا ہوگا؟ مگر پھر بھی اس وقت کے طاقتور ترین بادشاہ جسے تاریخ اکبرِ اعظم کے نام سے یاد کرتی ہے، نے اپنی رشتے کی بیٹی جو ان کی بھانجی یا بھتیجی تھی، یہاں کے بادشاہ سے بیاہ دی تھی۔

یہ واقعہ حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’علی شیر خان انچن، گلگت بلتستان کا سکندرِ اعظم‘ میں بیان کیا گیا ہے، جسے سکردو سے تعلق رکھنے والے ممتاز مصنف اور صحافی قاسم نسیم نے  لکھا ہے۔

علی شیر خان انچن کون تھے؟

گلگت بلتستان پر مقپون حکمرانوں کا عہد بارہویں صدی کے اواخر میں شروع ہوتا ہے اور علی شیر خان اس خاندان کے پندرہویں حکمران تھے، جن کا عہد 1588 سے 1625 تک جاتا ہے۔

انہوں نے اپنی فتوحات لداخ اور چترال تک پھیلا دی تھیں اس لیے ان کے نام کے ساتھ انچن کا لفظ لگایا گیا جس کے معنی اعظم کے ہیں۔

کہتے ہیں کہ جب علی شیر خان نے لداخ کے بدھ علاقوں پر قبضہ کر کے وہاں لوٹ مار کی تو اس کی خبر سلطنت دہلی کو ملی تو وہ وہاں بیٹھا اکبر اعظم، جس کا عہد ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے زریں عہد شمار کیا جاتا ہے، اسے سخت تشویش لاحق ہوئی اور اس نے ایک مہم علی شیر خان انچن کے خلاف روانہ کی۔

اس  مہم کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ علی شیر خان انچن نے کشمیر کے باغیوں کو پناہ دی ہوئی تھی۔ جس پر کشمیر کے مغل صوبہ دار، محمد قلی خان نے بھی بلتستان پر فوج کشی کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکی جس کے بعد اکبر اعظم نے 1591 میں مغلیہ دربار کی طرف سے سفیر بھیج کر دوستی کا ہاتھ بڑھایا، جو بعد ازاں رشتہ داری میں بدل گیا۔

مغل شہزادی گل خاتون سے شادی

گل خاتون کس کی بیٹی تھیں؟ اس حوالے سے تاریخ میں کوئی واضح شواہد تو نہیں ملتے تاہم یہ تذکرہ ضرور ہے کہ یہ شادی اکبر بادشاہ کی خواہش پر ہوئی اور شہزادی رشتے میں اکبر کی بھانجی یا بھتیجی تھیں، جن کی شادی علی شیر انچن سے دلی میں انجام پائی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک دور دراز علاقے میں اکبر نے یہ شادی کیسے کر دی؟ اس حوالے سے ایک توجیہہ تو یہ بیان کی جا سکتی ہے کہ مغل بادشاہوں اورشہزادوں میں کثیر الازدواج کا رواج تھا۔ خود اکبر نے چھ شادیاں کر رکھی تھیں، تاہم ان کے حرم میں 300 سے زائد خواتین کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ ان کے بچوں کے بارے میں بھی مختلف روایات ملتی ہیں۔

جب بچے زیادہ ہوتے تو پھر ایک مسئلہ یہ بھی درپیش ہوتا کہ ان کی شادیاں ہم پلہ خاندانوں میں کی جائیں۔ شاید اسی لیے انہوں نے ایک مغل شہزادی کا نکاح بلتستان کے بادشاہ علی شیر انچن کے ساتھ کر دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ شادی اس وقت انجام پائی جب علی شیر انچن دلی کے دورے پر گئے ہوئے تھے۔ شادی کے بعد شہزادی کے ساتھ دلی سے خدمت گاروں کی ایک بڑی جماعت سکردو بھیجی گئی، جن میں مختلف شعبوں کے ہنرمند بھی بڑی تعداد میں شامل تھے۔

شہنشاہ اکبر نے اپنا ایک معتبر خاص بھی ساتھ بھیجا جس کا نام ولی راجپوت تھا۔ قاسم نسیم لکھتے ہیں کہ گل خاتون بڑی شان و شوکت سے سکردو رہنے لگیں۔

بلتستان کے لوگ بھی اپنے ہر دل عزیز علی شیر خان انچن کی رانی سے بہت عقیدت کا اظہار کرتے تھے اور انہوں نے شہزادی کے نام گل خاتون کا بلتی ترجمہ کر کے اسے ’میندوق رگیالمو‘ رکھ لیا تھا۔ اسی نسبت سے ان کے محل کا نام بھی ’میندوق کھر‘ مشہور ہو گیا تھا، جو آج بھی اسی نسبت سے پکارا جاتا ہے۔

مغل شہزادی نے سکردو میں مغل طرز پر باغات بھی لگوائے۔ ان میں سے ایک باغ ہلال کی شکل میں تھا، اس لیے اسے ہلال باغ کہا جاتا ہے۔ گل خاتون نے ہی بلتستان میں سنگ مرمر کی تعمیرات کو متعارف کروایا۔ ان کے ہمراہ جو معمار آئے تھے انہوں نے سکردو میں جو محل اور قلعے  تعمیر کیے، ان میں مغل طرز تعمیر کا عکس نظر آنے لگا، جو لگ بھگ 400 سال گزرنے کے باوجود سکردو میں آج بھی موجود ہیں اور بلتستان کے قومی ورثے کا درجہ رکھتے ہیں۔

گل خاتون جب سکردو آئیں تو شاہی خاندان قلعہ کھر پوچے میں رہائش پزیر تھا۔ یہ قلعہ ایک بلند پہاڑی پر واقع ہے جو اس انداز سے تعمیر کیا گیا تھا کہ وہاں جانے کا بظاہر کوئی راستہ نہیں تھا اسی لیے یہ قلعہ ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا ۔

قلعے کے مکینوں کے لیے سرنگوں پر مشتمل خفیہ راستے بنائے گئے تھے۔ گل خاتون نے اپنے محل کی تعمیر کے لیے ایک ایسی جگہ کا انتخاب کیا جو شہر سے بلند بھی ہو اور جہاں آنے جانے کے راستے نسبتاً آسان بھی ہوں، جس کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے قلعہ کھرپوچو سے نچلی سطح پر دریا سے کچھ اوپر پہاڑی پر ایک عالی شان پانچ منزلہ محل تعمیر کروایا، جہاں سے شہر اور دریا کا نہایت خوبصورت نظارہ دیکھنے کو ملتا تھا۔

بعد میں ڈوگروں کے عہد میں محل کو آگ لگا دی گئی۔ مغل شہزادی نے جہاں سکردو میں باغات لگوائے، وہاں ان باغات کو سیراب کرنے کے لیے سدپارہ ڈیم، جو علی شیر خان نے تعمیر کروایا تھا، سے ایک گنگوپی نام کی ایک نہر بھی نکالی۔

گل خاتون کی بیٹی کی جہانگیر سے شادی

علی شیر انچن کی گل خاتون سے ایک بیٹی کنول رانی تھی، جس کی شادی علی شیر انچن مقامی سطح پر کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ علی شیر انچن نے خواہش ظاہر کی کہ ان کی بیٹی کی شادی کسی مغل شہزادے سے ہو جائے۔

پھر گل خاتون بھی چاہتی تھیں کہ ان کی بیٹی کی شادی ننھیال میں ہو جائے۔

انہوں نے دلی جا کر اس خواہش کا اظہار کیا جس پر دونوں خاندانوں کی رضا مندی سے کنول رانی کی شادی اکبر کے بیٹے شہزادہ سلیم سے کر دی گئی، جو بادشاہ بننے کے بعد جہانگیر کے نام سے مشہور ہوا۔

یہ شادی 11 جنوری 1592 میں انجام پائی۔ ایک قیاس یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ بلتستان میں چوں کہ سخت سردیاں پڑتی تھیں اس لیے مغل شہزادی موسم سرما دلی میں گزارتی ہوں گی اور اسی موسم میں یہ شادی بھی کر دی گئی۔ اس شادی کا تذکرہ مغل بادشاہ جہانگیر پر لکھی جانے والی کئی کتابوں میں بھی ملتا ہے، جس کے مطابق کنول رانی مغل بادشاہ جہانگیر کی آٹھویں بیوی تھیں۔

یہ شادی دھوم دھام سے ہوئی۔ مغل دربار کے سفیر طالب اصفہانی جو سفارتی امور کے سلسلے میں بلتستان میں تھے، وہ سکردو سے شاہی پروٹوکول کے مطابق بارات لے کر دلی گئے۔

’تاریخِ بلتستان‘ کے مصنف یوسف حسین آبادی اس واقعے کو یوں رقم کرتے ہیں۔

’1586 میں مغل بادشاہ اکبر نے کشمیر فتح کیا۔ اس کے ساتھ ہی مغل سلطنت کی سرحدیں جنوب کی طرف سے بلتستان سے آ ملیں۔ 1589 میں تختِ ہندوستان کی طرف سے ایوب بیگ کو بطور سفیر علی شیر انچن کی طرف بھیجا گیا۔ یہ مغل دربار کی طرف سے بلتستان کی طرف پہلی سفارت کاری تھی۔ اسی سفارت کاری کے نتیجے میں علی شیر انچن کی بیٹی کا رشتہ شہزادہ سلیم کے ساتھ طے ہوا۔ چنانچہ مغل دربار کی طرف سے حاجی مرزا بیگ کابلی اور طالب اصفہانی سفارت پر سکردو پہنچے اور شہزادی کو بمع تحفے تحائف ساتھ لے گئے اور شہزادہ سلیم کے ساتھ اس کا بیاہ عمل میں آیا۔‘

بلتستان اور دلی کے تعلقات کے حوالے سے ایک حوالہ یہ بھی ہے کہ علی شیر خان انچن بچپن میں ہی یتیم ہو گئے تھے اور وہ پناہ کی غرض سے اپنے خاص ساتھیوں کے ساتھ دلی جا کر مقیم ہو گئے جہاں انہوں نے ایک شیر کو مارا، جسے دیکھ کر اکبر بہت متاثر ہوا اور اسے اپنی فوج کے ایک دستے کی کمان  سونپ دی اور اس کی شادی بھی شہزادی گل خاتون سے کر دی۔

بعد میں جب اکبر نے کشمیر فتح کیا تو علی شیر خان بطور جرنیل ان کے ساتھ تھا، جسے مغل مؤرخین نے علی رائے کے نام سے یاد کیا ہے۔ اس حوالے میں ایک سقم یہ بھی ہے کہ اکبر کی شہرت ایک ایسے حکمران کی تھی جہاں اقلیتوں کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔

انہوں نے ہندوستان میں خالصتاً ایک تکثیری سماج کو رواج دیا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان کا سکردو میں متعین کردہ حکمران ایسا ہو، جس نے لداخ میں اپنی فوج کشی کے دوران بدھ مت کی عبادت گاہوں کو خاصا نقصان پہنچایا ہو، جس کے زخم آج بھی لداخ اور تبتیوں کے دلوں میں موجود ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ