حکمران تاریخ کے ذریعے زندہ رہنا چاہتے ہیں جب کہ عام لوگوں کو بے مصرف سمجھ کر تاریخ سے نکال دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمرانوں کے پاس طاقت ہوتی ہے جب کہ عام لوگ بے بس ہوتے ہیں، اس لیے تاریخ طاقتور حکمرانوں کے کارناموں کو بیان کرتی ہے اور عام لوگ جو تاریخ بناتے ہیں، انہیں نظر انداز کر دیتی ہے۔
حکمرانوں کی یہ خواہش رہی ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہیں۔ حالات تبدیل نہ ہوں اور وہ ہمیشہ با اختیار رہیں۔ میسوپوٹامیہ کی ریاست ارک کے حکمران کی یہ خواہش گلگامش کی داستان میں بیان کی گئی ہے۔ چین کے چنگ خاندان کے حکمران چن سی ہوانگ کی بھی ہمیشہ زندہ رہنے کی خواہش تھی جو پوری نہ ہو سکی۔ حکمرانوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ تاریخ میں اپنے کارناموں کو لکھوا کر زندہ رہیں۔
زندہ رہنے کی دوسری صورت یہ تھی کہ اپنے مجسمے بنا کر پوری سلطنت میں نصب کروا دیں تاکہ لوگ انہیں دیکھ کر ان کے بارے میں اپنی یادیں باقی رکھیں، اس لیے تاریخ کا ایک رخ یہ ہے کہ وہ حکمران طبقوں کو زندہ رکھتی ہیں۔ ابتدائی عہد میں تاریخ پر حکمرانوں کا قبضہ تھا۔ عام لوگوں کی کوئی تاریخ نہیں ہوتی تھی۔ اس کا اثر معاشرے کے کلچر پر تھا۔ حکمران طبقہ اپنی خاندانی شہرت اور کارناموں کی بنا پر خود پر فخر کرتا تھا اور عام لوگوں کو کمتر اور بے حس قرار دیتا تھا۔
تاریخ کی اس تقسیم کی وجہ سے ایک طویل عرصہ تک استبدادی حکومتیں قائم رہیں۔ یہ نظام اس وقت ٹوٹا جب معاشرے میں جمہوری روایات اور ادارے آئے۔ عام لوگوں کو ووٹ کا حق ملا۔ انتخاب میں ان کے نمائندے جیتے تو عام لوگوں کی سیاست میں شرکت ہو گئی۔ اس سیاسی تبدیلی کے ساتھ تاریخ نویسی میں بھی تبدیلی آئی۔ لین ہنٹ اپنی کتاب ’رائٹنگ ہسٹری ان دا گلوبل ایرا‘ میں خاص طور سے تاریخ میں ان تبدیلیوں کا ذکر کیا ہے جو تعلیمی اداروں میں آئیں تھیں۔
مثلاً امریکہ کی یونیورسٹیوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ جب تاریخ کے شعبے میں مختلف قوموں کے طالب علم آئے جن میں اٹلی، سپین، مشرقی یورپ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کے طالب علم شامل تھے، تو ان کی دلچسپی صرف امریکہ اور یورپ کی تاریخ سے نہیں تھی بلکہ یہ طالب علم اپنے ملکوں اور قوموں کی تاریخ جاننا چاہتے تھے۔ ان حالات میں امریکہ کے تعلیمی اداروں کو اپنا نصاب بدلنا پڑا، جس نے گلوبل تاریخ کی شکل اختیار کی۔ گلوبل تاریخ نویسی کی وجہ سے یہ مختلف نظریات سے آزاد ہو گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب تک اس کو جو قوم پرستی، مارکس ازم، سرمایہ داری اور نسل پرستی کی بنیاد پر لکھا جا رہا تھا اس کا خاتمہ ہوا۔ ہنٹ اس دلیل کے مطابق ایشیا اور افریقہ کے ممالک جو تاریخ کے ذریعے یورپی کلونیل ازم کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے۔ اپنے کلچر اور شناخت کو تلاش کر رہے تھے۔ ان سے تاریخ چھین کر ان کو گلوبل ہسٹری میں تبدیل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ امریکہ اور یورپ گلوبل تاریخ کے ذریعے ان پر حکومت کرے۔
یورپی ریاستوں نے سامراجی عہد میں ایشیا اور افریقہ کی تاریخ کو اس وقت مسخ کیا گیا، جب ان یورپی ملکوں نے اپنی نوآبادیوں میں تاریخ لکھی جس میں ان نوآبادیوں کو غیر مہذب ثابت کر کے اپنے اقتدار کو جائز قرار دیا ہے۔
سابق نوآبادیوں کے مؤرخ اب تاریخ نویسی کے ذریعے ایک ایسی تاریخ مرتب کر رہے ہیں جن میں شاہی خاندانوں اور حکمران طبقوں سے ہٹ کر عام لوگوں کی شرکت کو یقینی بنا رہے ہیں۔ جن میں کسان، چرواہے، خانہ بدوش، ہنر مند، کاریگر اور مزدور وغیرہ شامل ہیں جو معاشرے کی روزمرہ کی زندگی میں محنت مشقت کر کے ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں۔ اب تک عورتیں تاریخ کا حصہ نہیں تھیں۔ ان کے گھریلو کاموں کو کوئی وقعت نہیں دی جاتی تھی اور نہ ہی اس کا معاوضہ دیا جاتا تھا لیکن اب تحریکِ نسواں کی تاریخ میں ان سوالوں کو اٹھایا جا رہا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تاریخ کے مضمون کو وسعت دی جائے اور ان قبائل، برادری اور ذاتوں کی تاریخ لکھی جائے تاکہ اس کے ذریعے ان میں اپنی شناخت کا احساس ہو۔
تاریخ کا مضمون ایک ایسا ذریعہ ہے جو نہ صرف لوگوں کو اعتماد دیتا ہے بلکہ حقوق کے حصول کے لیے ان کی مدد کرتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک کو ایک نئی تاریخ کی ضرورت ہے، جس میں جذبات سے بالاتر اور افسانوی خیالات سے دور رہتے ہوئے اصل تاریخ مرتب کی جائے، جو شعور اور سوچ کا نتیجہ ہے۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔