فرعون کے دور کی چار ہزار سال پرانی پینٹنگ مصر کے مشہور سقارہ کے قدیم قبرستان سے غائب ہوگئی، جو پراسرار حالات میں غائب ہونے والی تازہ ترین نادر چیز ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق چونے کے پتھر کی ابھری ہوئی کندہ کاری قاہرہ کے باہر سقارہ کے قدیم قبرستان میں موجود خن تیکا کے قدیم ’منحوس‘ مقبرے کی دیوار سے کاٹ کر نکالی گئی۔
ٹیلی ویژن چننل کائرو 24 کے مطابق قبر پر کام کرنے والے ایک برطانوی مشن نے مئی میں پتہ لگایا کہ پینٹنگ غائب ہے، لیکن حکام نے اس کی گمشدگی کا اعلان اتوار کو کیا۔
اب محکمہ آثار قدیمہ کی ایک کمیٹی قائم کردی گئی ہے، جو قبر میں موجود ہر چیز کی فہرست تیار کرے گی۔ وزارت سیاحت و نوادرات نے یقین دہانی کروائی ہے کہ معاملہ تحقیقات کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔
مصری میڈیا نے اطلاع دی کہ اس پینٹنگ میں قدیم مصری کیلنڈر دکھایا گیا تھا، جو دریائے نیل کے پانی کی سطح میں اتار چڑھاؤ کی نقل کرتے ہوئے سال کو تین موسموں میں تقسیم کرتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تقریباً 16 ضرب 24 انچ کے اس نقش میں سیلاب کا موسم اخیت، کاشت کا موسم پرویات اور فصل کا موسم شومو شامل تھے۔
یہ قبر قدیم مصر کے شاہی خاندان کے لیے مخصوص قبروں میں سے ہے، جن کے سامنے والے حصے پر نحوست کندہ ہے۔ برطانوی مصرشناس ہیری جیمز، جنہوں نے 1950 کی دہائی میں اس قبر پر ایک تحقیقی مقالہ مشترکہ طور پر لکھا، کے مطابق ان تحریروں میں در اندازوں کو خبردار کیا گیا تھا کہ انہیں خدائی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہ شاہی قبر 1950 کی دہائی میں دریافت ہوئی تھی اور 2019 کے بعد سے نہیں کھولی گئی۔ یہ قدیم سلطنت کے چھٹے خاندان سے تعلق رکھتی ہے، جو تقریباً 2700 قبل از مسیح سے 2200 قبل از مسیح کے دور تک پھیلا ہوا تھا۔
سقارہ کا یہ مقام مصر کے قدیم دارالحکومت میمفس کے ایک وسیع قدیم قبرستان کا حصہ ہے، جس میں مشہور جیزا کے اہرام، جوسر کا سیڑھی دار ہرم اور ابوصیر، دہشور اور ابو رواش کے چھوٹے اہرام بھی موجود ہیں۔
1970 کی دہائی میں میمفس کے کھنڈرات کو یونسکو کے عالمی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا۔
اس منقش ابھار کی گمشدگی کا پتہ اس وقت چلا جب اہلکاروں نے بتایا کہ بحالی کے لیے کام کرنے والے ایک کارکن نے عجائب گھر سے چوری شدہ تین ہزار سال پرانا طلائی کڑا چوری کر لیا، جسے فروخت کے بعد پگھلا دیا گیا۔
مصر کے سیاحت و نوادرات کے وزیر شریف فاتی نے ہفتے کی رات ٹیلی وژن پر تبصرے میں کہا کہ یہ کڑا نو ستمبر کو چرایا گیا، جب عجائب گھر کے اہلکار اٹلی میں نمائش کے لیے نوادرات تیار کر رہے تھے۔
انہوں نے ادارے میں طریقہ کار کے نفاذ میں ’کوتاہی‘ کو ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ حکام اب بھی تحقیقات کر رہے ہیں۔
یہ کڑا، جس میں لاجورد جڑا ہوا تھا، فرعون آمن اوپے کا تھا، جن کی حکمرانی تقریباً 3000 سال پہلے تھی۔
حکام نے بتایا کہ اسے عجائب گھر کی بحالی لیبارٹری سے چرایا گیا اور پگھلائے جانے سے پہلے یہ ڈیلروں کے ایک نیٹ ورک کے ہاتھوں سے گزرا۔
وزارت داخلہ نے کہا کہ چار مشتبہ افراد کو گرفتار کر کے پوچھ گچھ کی گئی، جن میں عجائب گھر کے ایک بحالی ماہر بھی شامل ہیں۔
وزارت داخلہ کے مطابق گرفتار بحالی ماہر نے اعتراف کیا کہ انہوں نے کڑا اپنے ایک واقف کار کو دے دیا، جو قاہرہ کے علاقے سیدہ زینب میں چاندی کی دکان کے مالک ہیں۔
بعد میں اسے سونے کی ورکشاب کے مالک کو تقریباً 3800 ڈالر میں فروخت کر دیا گیا۔ اسے آخرکار سونے کی ایک اور ورکشاپ میں کام کرنے والے شخص کو 4000 ڈالر میں بیچ دیا گیا۔ بعدازاں اس کارکن نے طلائی زیورات بنانے کے لیے اس کڑے کو پگھلا دیا۔
© The Independent