نپولین کی فوج روس میں کیسے تباہ ہوئی، نئی تحقیق سامنے آ گئی

نئی تحقیق سے نپولین کی تباہ کن مہم میں فوجیوں پر گزرنے والی اذیتوں کو مزید گہرائی سے سمجھنے میں مدد ملی ہے اور محققین نے ڈی این اے کی مدد سے تباہ شدہ فوج میں پھیلنے والی مہلک بیماریوں کا سراغ لگایا۔

نپولین کے مصر پر حملے کی تصویر جسے فرانسیسی مصور آنتوان ژاں گروس نے 1810 میں تخلیق کیا (پبلک ڈومین)

نپولین بوناپارٹ کی فوج (گرینڈ آرمی) کی روس سے 1812 میں تباہ کن پسپائی، جس میں پانچ لاکھ فوجیوں میں سے تقریباً تین لاکھ مہلک بیماریوں اور دیگر وجوہات کی وجہ سے مارے گئے تھے، نپولین کے یورپ پر تسلط اور سلطنت کے زوال کی ابتدا ثابت ہوئی۔

اب ایک نئی تحقیق سے اس تباہ کن مہم میں فوجیوں پر گزرنے والی اذیتوں کو مزید گہرائی سے سمجھنے میں مدد ملی ہے۔

سائنس دانوں نے شمالی یورپ کے ملک لیتھوانیا کے دارالحکومت ولنیئس میں واقع ایک اجتماعی قبر سے ملنے والے 13 فرانسیسی فوجیوں کے دانتوں سے ڈی این اے حاصل کیا۔ یہ قبریں اسی راستے پر موجود ہیں جہاں سے نپولین کی فوج واپس لوٹی تھی۔

تجزیے میں دو ایسے بیکٹیریا کا انکشاف ہوا ہے جن کا اس تاریخی سانحے سے پہلے کوئی تعلق ریکارڈ نہیں ملتا۔ ان میں پیراٹائیفائیڈ بخار اور جوؤں سے پھیلنے اور بار بار لوٹ آنے والا بخار (louse-borne relapsing fever) پیدا کرنے والے بیکٹریا شامل تھے۔

یہ نتائج پہلے ہونے والی اس تحقیق کو تقویت دیتے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ انتہائی سردی، بھوک اور تھکن سے نڈھال فرانسیسی سپاہیوں پر کئی متعدی امراض نے بیک وقت حملہ کیا تھا۔

2001  میں دریافت ہونے والی یہ اجتماعی قبر نپولین کی بدقسمت فوج کے تقریباً دو  سے تین ہزار سپاہیوں کی باقیات پر مشتمل ہے۔

تحقیق کے مرکزی مصنف اور پیرس کے انسٹی ٹیوٹ پاسچر میں مائیکروبیل پیلیوجینومکس یونٹ کے سربراہ نکولس ریسکووان نے اس حوالے سے بتایا: ’ولنیئس 1812 کی واپسی کے راستے میں ایک اہم مقام تھا۔ بہت سے فوجی وہاں پہنچتے پہنچتے نڈھال، فاقہ زدہ اور بیمار ہو چکے تھے۔ ان میں سے بڑی تعداد وہیں مر گئی جنہیں جلد بازی میں اجتماعی قبروں میں دفنا دیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا: ’اب تک ان کی اموات میں سردی، بھوک اور ٹائیفس کو بنیادی وجوہات سمجھا جاتا رہا مگر ہمارے نتائج بتاتے ہیں کہ پیراٹائیفائیڈ اور جوؤں سے پھیلنے والے بخار جیسی متعدی بیماریاں بھی شامل تھیں اور ممکنہ طور پر اموات اور کمزوری میں ان کا بڑا حصہ تھا۔‘

پیراٹائیفائیڈ بخار عام طور پر آلودہ خوراک یا پانی سے پھیلتا ہے اور اس کی علامات میں بخار، سر درد، پیٹ میں درد، اسہال یا قبض، کمزوری اور کبھی کبھار خارش نما دانے شامل ہوتے ہیں۔ جبکہ ری لیپسنگ فیور جوؤں کے ذریعے پھیلتا ہے اور وقفے وقفے سے تیز بخار، پٹھوں کا درد، سر درد اور کمزوری پیدا کرتا ہے۔

تحقیق میں 13 میں سے چار فوجیوں کے دانتوں میں پیراٹائیفائیڈ بخار کے جراثیم اور دو میں ری لیپسنگ فیور کے جراثیم پائے گئے۔ ان دونوں بیماریوں کی علامات تاریخی تحریروں میں بیان کردہ علامات سے مطابقت رکھتی ہیں۔

2006  کی ایک تحقیق میں اسی قبرستان کے 35  فوجیوں کے ڈی این اے سے ٹائیفس اور ٹرینچ فیور کے جراثیم ملے تھے جن کی علامات پیراٹائیفائیڈ اور ری لیپسنگ فیور سے ملتی جلتی ہیں۔ البتہ تازہ تحقیق میں یہ دونوں بیماریاں نہیں پائی گئی تھیں۔

1812  میں نپولین نے اپنی عظیم فوج کے ساتھ روس پر حملہ کیا اور ماسکو تک جا پہنچا مگر سامان کی قلت، روس کی جوابی حملوں اور شدید سرد موسم کے باعث اسے تباہ کن پسپائی اختیار کرنا پڑی۔

تازہ نتائج نپولین کے فوجیوں کی حالتِ زار کی کہانی کو ایک نئی جہت دیتے ہیں اور اب یہ واضح ہے کہ فوج صرف ایک یا دو امراض سے نہیں بلکہ مختلف متعدی بیماریوں کے مجموعی دباؤ کا شکار تھی۔

تحقیق اگرچہ یہ نہیں بتاتی کہ نئے دریافت شدہ جراثیم کتنے وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے تھے تاہم یہ اس پسپائی کے طبی تنوع اور پیچیدگی کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ریسکووان کے مطابق: ’قدیم ڈی این اے سے ہمیں وہ مخصوص امراض شناخت کرنے میں مدد ملی جنہیں صرف علامات سے پہچاننا ممکن نہیں ہوتا۔ مختلف ذرائع سے پھیلنے والے جراثیموں کی موجودگی اس وقت کے انتہائی ناقص صفائی کے حالات کو ظاہر کرتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ: ’آئندہ مزید مقامات اور نمونوں پر تحقیق 1812 کی بیماریوں کی تصویر کو مزید واضح کرے گی۔‘

یہ تحقیق اس بات کی مثال ہے کہ قدیم ڈی این اے تجزیے کی مسلسل ترقی پانے والی سائنس تاریخ کے پیچیدہ واقعات پر نئی روشنی ڈال سکتی ہے۔

جیسا کہ ریسکووان نے کہا: ’قدیم ڈی این اے ہمیں تاریخی مفروضوں کو براہ راست جانچنے کی صلاحیت دیتے ہیں اور وہ ثبوت فراہم کرتے ہیں جو پرانی دستاویزات یا علامات کی بنیاد پر بننے والے بیانیے کی تصدیق یا تردید کر سکتے ہیں۔‘

ان کے بقول: ’محتاط تصدیق کے ساتھ، جینومکس یہ بتا سکتی ہے کہ کون سے جراثیم موجود تھے، وہ کیسے ارتقا پذیر ہوئے، کیسے پھیلے اور کتنی دیر برقرار رہے۔ یوں مورخین اور سائنس دان دونوں کو تاریخی بحرانوں کو زیادہ درستگی سے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق