انڈیا میں اکبر ’اعظم‘ رہا نہ ٹیپو سلطان ’شیر میسور‘

اگر انڈیا اپنی شناخت ایک ہندو ریاست کے طور پر کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے تو اسے ان شخصیات کو نصاب میں جگہ دینی ہے، جنہیں وہ اپنے مذہبی فخر کے تناظر میں عظیم سے عظیم تر حیثیت میں پیش کر سکے۔

ٹیپو سلطان کو انڈیا کے نصاب میں ایک قوم پرست مزاحمتی رہنما کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے(Fowler&fowler at English Wikipedia)

انڈیا میں قومی نصاب کی کتابوں میں تاریخ کے حوالے سے کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں، جن میں ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے کردار کو پہلے سے مختلف انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

اکبر اور ٹیپو سلطان جیسے حکمرانوں کے ساتھ ’عظیم‘ جیسے لاحقے ہٹا دیے گئے ہیں۔ پہلے مرحلے میں 11 جماعتوں کا نصاب بدلا گیا ہے۔

انڈین وزارت تعلیم کا ادارہ جو قومی سطح پر نصاب کی تیاری یا اس کی ہدایات دیتا ہے، اسے ’نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ‘ کہا جاتا ہے۔ 

اس ادارے نے ہائی سکول تک کا نصاب بدل دیا جبکہ کالج کی سطح کے نئے نصاب کی کتابیں اگلے سال متعارف کروا دی جائیں گی۔

انڈیا کے انتہا پسند حلقے اسے قابل ستائش عمل قرار دے رہے ہیں جبکہ آزاد حلقے اس پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ 

آر ایس ایس کے رہنما سنیل امبیکر نے اس عمل کو سراہتے ہوئے کہا: ’کسی تاریخی شخصیت کے کردار کو نصاب سے حذف نہیں کیا گیا بلکہ انہیں پیش کرنے کا انداز بدلا گیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’ہماری نئی نسل کو ماضی کے کرداروں کے ظالمانہ انداز سے بھی آگاہ ہونا چاہیے، انہیں یک طرفہ معلومات نہیں دی جانی چاہییں۔‘

انڈیا آزادی کے 78 سال بعد اپنے نصاب میں تبدیلیاں کیوں کر رہا ہے؟ کیا وہ سیکولر ریاست کی جگہ ایک مذہبی ریاست کی طرف گامزن ہے اور انڈین اقلیتوں کو اس سے کیا خطرہ ہے؟ یہ سارے سوال اس وقت انڈیا میں زیر بحث ہیں۔

کیا انڈیا اپنا قومی بیانیہ بدل رہا ہے؟

ہندوستان کی آزادی کے سرکردہ رہنماؤں نے اسے ایک سیکولر ریاست کے طور پر پیش کیا تھا۔ جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ ’ہمیں ایک ایسا ملک بنانا ہے جہاں ہر مذہب کو آزادی حاصل ہو ریاست کسی مذہب کی طرف داری نہ کرے۔‘

ناقدین کا کہنا ہے کہ کانگریس کے برعکس بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومتیں انڈیا کو ایک کٹر ہندو ریاست میں بدلنا چاہتی ہیں۔ 

شہری مساوات کی بجائے اکثریتی مذہبی شناخت کو ریاست کا مرکزی اصول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

جدید ہندوستان کی شناخت کو ہندو تہذیب کی برتری کے تحت پیش کیا جا رہا ہے۔ اسی پس منظر میں انڈیا میں شہریت، آبادی اور ووٹنگ کے قوانین میں تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ 

انڈین وزیراعظم نریندر مودی اپنی تقاریر میں واضح طور پر کہتے ہیں کہ ’ہم 80 فیصد ہیں۔‘

انڈیا کے نصاب میں حالیہ بنیادی تبدیلیوں کو بھی اسی حوالے سے دیکھا جا رہا ہے۔ مسلمان اور دوسری اقلیتوں کے مقابلے میں ہندو دھرم کو اولیت دی جا رہی ہے۔ 

تاریخ کو بھی مذہب کے لبادے میں پیش کیا جا رہا ہے۔ مسلم شخصیات کا کردار محدود کر کے ہندو شخصیات اور تہواروں کو اہمیت دی جا رہی ہے۔

اکبراعظم اور ٹیپو سلطان ہی نشانہ کیوں؟

آج سے پہلے کے ہندوستان میں مغل بادشاہ اکبر اعظم کو سب سے اہم حیثیت حاصل رہی ہے، جس کی وجہ ان کی سیکولر روایات ہیں۔ 

انڈیا کی مشہور فلم ’جودھا اکبر‘ میں بھی اکبر کو ایک ایسے حکمران کے روپ میں پیش کیا گیا، جو منصف بھی ہے اور عادل بھی۔

فلم میں دکھایا گیا کہ وہ امن پسند ہے اور مذہبی ہم آہنگی پر بھی یقین رکھتا ہے۔ وہ اقلیتوں کا نہ صرف خیال رکھتا ہے بلکہ مذہب کو ریاستی معاملات سے الگ سمجھتا ہے۔

اکبر کو ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد کی علامت کے طور پر بھی پیش کیا گیا۔

اکبر اعظم کے بعد ہندوستان میں دوسرا اہم مرتبہ ٹیپو سلطان کو حاصل رہا ہے، جسے ایک قوم پرست مزاحمتی رہنما کے طور پر پیش کیا جاتا رہا، جو انگریزوں کے خلاف قومی مزاحمت کی علامت بن گیا تھا۔

انڈیا کی مرکزی حکومت اور کرناٹک کی صوبائی حکومت کئی دہائیوں تک ان کی سالگرہ اور برسی کا دن سرکاری سطح پر مناتی رہی ہیں۔ 

ٹیپو سلطان کے نام پر سڑکیں، پارک اور ادارے بنائے گئے۔ ان کے نام پر ٹرینیں چلائی گئیں۔

لیکن جب سے کرناٹک میں بی جے پی برسرِ اقتدار میں آئی تو اس نے ٹیپو سلطان کی یاد میں ہونے والی تقریبات کی روایت ختم کر دی۔ آر ایس ایس ٹیپو سلطان کو ہندوؤں کا مخالف اور مذہبی طور پر متعصب سمجھتی ہے۔

اسی طرح اس کا موقف ہے کہ جب اکبر کے ساتھ اعظم کا لقب لگایا جاتا ہے تو گویا ہندو طلبہ کو ایک مسلمان حکمران سے مرعوب کیا جا رہا ہوتا ہے۔ 

اسی تناظر میں انڈیا کے قومی نصاب میں جہاں تاریخ کو نئے انداز سے پیش کیا جا رہا ہے، وہیں ان شخصیات کے ساتھ اعظم جیسے القابات ہٹا دیے گئے ہیں۔

نصاب سے مغل اور دہلی سلطنت کے ابواب نکال کر ان کی جگہ مگدھ، موریہ، سنگھا اور ستاواہانا ادوار کو ہندو تہذیب کی شناخت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ 

جسے بعض ماہرین نصاب کو ہندو نظریاتی رنگ دینے کی کوششوں کا حصہ سمجھتے ہیں۔

انڈیا ایسا کیوں کر رہا ہے؟

انڈین نصاب مرتب کرنے والے ادارے این سی ای آر ٹی کا موقف ہے کہ وہ صرف بنیادی فریم ورک دیتا ہے، انڈیا کے وفاقی نظام میں ریاستیں اپنے تعلیمی نصاب میں اپنے علاقائی اور تاریخی واقعات کو شامل کر سکتی ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ ان کی اپنی صوابدید ہے کہ وہ کس کو کس انداز سے پیش کرتی ہیں۔

نصاب میں کسی شخصیت کو مثالی انداز یا ہیرو کے طور پر پیش کرنے کی بجائے طلبہ کو یہ موقع دیا جا رہا ہے کہ وہ کسی بھی کردار کو اس کی تمام تر پیچیدگیوں کو سامنے رکھتے ہوئے خود یہ اخذ کریں کہ وہ کیا تھا؟ تاکہ وہ اپنے مشاہدے اور علم کے ذریعے تنقیدی فکر اختیار کر سکیں۔

دوسری جانب انڈیا کے سیکولر حلقے یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ رویہ ہندو شناخت رکھنے والے تاریخی کرداروں کے ساتھ کیوں روا نہیں رکھا جا رہا اور اس کا نشانہ صرف وہ کردار ہی کیوں ہیں جو غیر ہندو ہیں۔

لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انڈیا وہ پہلا ملک نہیں جس نے اس ہدف کے تحت اپنے نصاب میں تبدیلیاں کی ہیں۔

پاکستان کے قومی نصاب کے حوالے سے اقلیتوں کو ایسی شکایات ایک عرصے سے ہیں۔ ترکی، روس، چین، پولینڈ، ہنگری، جرمنی، فرانس، جاپان حتیٰ کہ امریکہ میں بھی تاریخی شخصیات کو قومی بیانیے کے تناظر میں ہی پیش کیا جاتا ہے۔

ہندوستان کا جب قومی بیانیہ سیکولر تھا تو اکبر اعظم تھا، ٹیپو سلطان عظیم تر تھا، مگر اب ہندوستان اگر اپنی شناخت ایک ہندو ریاست کے طور پر کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے تو پھر ظاہر ہے کہ اسے اکبر اور ٹیپو سلطان کی جگہ نئی شخصیات کو نصاب میں جگہ دینی ہے، جنہیں وہ اپنے مذہبی فخر کے تناظر میں عظیم سے عظیم تر حیثیت میں پیش کر سکے۔

نوٹ: یہ خبر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ