کاغذ سازی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی ان قدیم صنعتوں میں شمار ہوتی تھی جن پر کبھی کشمیر کی خودکفیل معیشت کی بنیادیں استوار تھیں لیکن مرورِ ایام کے ساتھ ساتھ جہاں بہت کچھ بدلا، وہیں کشمیر میں کاغذ سازی کی صنعت بھی دم توڑ کر اب صرف تاریخ کی کتابوں میں اپنا مرثیہ پیش کر رہی ہے۔
وادیِ کشمیر کے مذہبی تمدنی ثقافتی اور ادبی سرمایے کو محفوظ کرنے میں اس صنعت کے ساتھ مختلف زبانوں کے فروغ میں اس صنعت کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ہندو اور بدھ دور کے بیشتر مخطوطات بھوج پتر پر تحریر کردہ ہیں لیکن اسلامی دور میں کشمیر کے اندر کاغذ کے استعمال کی شروعات نے ماہرین کے مطابق عقائد اور علوم کو نسل درنسل عام کرنے میں بیش بہا کردار ادا کیا، کیونکہ بولے ہوئے لفظ سے زیادہ لکھے ہوئے الفاظ کی عمر بہت طویل ہوتی ہے۔
مگر سکھ دور کے ساتھ ہی اس صنعت کا زوال شروع ہوتے ہوئے بالآخر ڈوگرہ دور کے متوسط ایام میں اس صنعت کا جنازہ اٹھ گیا۔ کشمیر میں اس صنعت سے عوام کی وابستگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس سے جڑے صنعت کاروں اور ہنرمندوں کے لیے سلطان العابدین بڈشاہ نے اپنے دارالحکومت نوشہرہ سرینگر میں ایک الگ بستی بسائی، جو آج بھی کاغذ گر محلہ کے نام سے مشہور ہے۔
سیمنٹ اور سریے سے تعمیر شدہ اس محلے کی مضبوط عمارتوں کی بنیادوں کو کبھی اس کاغذی صنعت نے استوار کیا تھا۔ مورخ اور محقق فدا محمد حسنین کے مطابق کاغذ اگرچہ ملک چین کی ایجاد ہے مگر کشمیر میں اس صنعت کے بانی شاہمیری دور کے سلطان زین العابدین بڈشاہ ہی رہے ہیں۔
بڈشاہ نے وسط ایشائی شہر سمرقند سے کاغذ سازوں کو لا کر یہاں اپنے دارالحکومت نوشہرہ سرینگر کے قریب آباد کیا تھا جو آج بھی کاغذ گر محلہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس محلے میں آج بھی اس صنعت سے تعلق رکھنے والوں کی ذریت موجود ہے بلکہ کاغذ سازی کے کارخانے سکھ دور جو 1846 میں ختم ہوا، تک موجود تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کشمیری کاغذ اپنی منفرد صفائی اور پائیداری کی وجہ سے پورے ہندوستان میں نہایت پسند کیا جاتا تھا اور یہی وجہ ہے جب مغل شہنشاہ اکبر نے اپنے دورِ حکومت میں سکوں کو کاغذی کرنسی میں تبدیل کرنے کی خواہش ظاہرکی تو اس وقت کرنسی کے لیے کشمیری کاغذ کا ہی انتخاب کیا گیا۔
محکمہ آثار قدیمہ کے سابق سینیئر آفیسر اور سکالر پیرزادہ محمد اشرف کہتے ہیں، ’کئی کتب خانوں اور آرکائیوز میں چارسو برس قدیم مخطوطات موجود ہیں جو کشمیری کاغذ پر تحریر کیے گئے ہیں اور یہ کاغذ اس قدر پائیدار ہے کہ اس کاغذ پر لکھی ہوئی کتابیں تین سو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود محفوظ وغیر متاثر پائی گئی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کاغذ گر محلہ کے ایک 70 سالہ بزرگ عبدالرحمٰن نے بتایا، ’میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ کشمیری کاغذ ہاتھوں سے تیار کیا جاتا تھا اور اس کی تیاری میں بوسیدہ ملبوسات، درختوں کی اندرونی چھال، توت اور درختوں کے پتے وغیرہ بنیادی مواد فراہم کرتے تھے۔ ان اجزا کو گرم پانی میں ملا کر موسلوں سے بڑے بڑے اوکھلوں میں کوٹ کر دھونے دھلانے کے کئی مراحل سے گزار کر اس کا گودا تیار کیا جاتا تھا جسے لکڑی کے تختوں پر پھیلایا جاتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’چند ہفتوں کے اندر جب یہ سوکھ کر کپڑے کے تھان جیسی شکل اختیار کر لیتا تو اسے کانچ کے گوٹوں سے رگڑ رگڑ کر اس میں چکناہٹ پیدا کی جاتی تھی جس کی وجہ سے کاغذ پر قلم روانی سے چلتا تھا اور تحریر میں چمک ابھرتی تھی۔ پھر کاغذ کے ان تھانوں کو مختلف جائزوں میں تراش کر ان کے تختے تیار کیے جاتے تھے۔‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ ’برصغیر پر انگریزوں کی آمد کے ساتھ ہی کشمیر کی خودمختاری پر جہاں دور رَس اثرات مرتب ہوئے وہیں ہندوستان میں انگریزی کاغذ کے چلن نے کشمیر کے کاغذ کو بازار سے آہستہ آہستہ باہر دھکیل دیا۔ ایک طرف سکھوں اور ڈوگروں کی حکومت کشمیریوں کی خودکفالت پر تیشہ زن تھی دوسری جانب کم لاگت پر بننے والے مشینی کاغذ کی بہتات نے اس شے کو تاریخ کے گرد آلود طاقچوں کی نذر کر کے زیارت دید کے نوادرات میں شامل کر دیا۔‘
معروف محقق محمد یوسف ٹینگ کہتے ہیں، ’جہاں کاغذ کی صنعت کے خاتمے میں بہت سارے عوامل کارفرما ہیں وہیں پر سکھ اور ڈوگرہ دور کے ٹیکس نظام نے اس کی بنیادوں پر کلہاڑی مار دی۔ ان کے مطابق سکھ اور ڈوگرہ حکمرانوں نے کشمیر کے صنعت کاروں اور دست کاروں پر اس قدر بھاری ٹیکس عائد کیے کہ ’وہ دو وقت کی روٹی جٹانے میں بھی کامیاب نہیں ہو پاتے تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر شال بافوں نے مہاراجہ رنبیر سنگھ کے داغ شال راج کاک دھر کی وضع کردہ ٹیکس پالیسی خلاف علمِ بغاوت بلند کر کے حکومت کو جھکنے پر مجبور نہیں کیا ہوتا تو آج شال بافی کی صنعت کا حشر بھی کاغذ سازی کی صنعت سے مختلف نہ ہوتا۔ آج بھی اگرچہ کاغذ سازی کے لیے کشمیر میں بنیادی مواد کی فراہمی کی کوئی کمی نہیں مگر کسی بھی عوامی حکومت کو یہ توفیق عطا نہیں ہوئی کہ وہ اس صنعت کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کرتی۔‘