روپے کی گرتی ہوئی قدر سے جہاں مہنگائی کا سیلاب آیا ہوا ہے اور اشیا کے نرخ روزانہ کے حساب سے اوپر جا رہے ہیں ان میں ایک شے ایسی بھی ہے جس کی قیمتیں گذشتہ آٹھ ماہ میں تین گنا بڑھ چکی ہیں اور اب وہ اتنی زیادہ ہو چکی ہیں کہ پاکستان کے بیشتر پبلشروں نے کتابوں کی اشاعت روک دی ہے۔
درآمدی کاغذ اور کتابوں کے کنٹینر رکنے اور نئی ایل سی کھلنے میں مشکلات کی وجہ سے اے اور او لیول سمیت میڈیکل اور دیگر شعبوں کے طلبا کو اس سال ستمبر میں نئی کتابیں ملنے کے حوالے سے سوالیہ نشان پیدا ہوا چکا ہے۔
جو کاپی پچھلے سال 100 روپے کی تھی اب مارکیٹ میں 300 کی ہو چکی ہے۔ یہ بحران دراصل ہے کیا اور اس کی وجوہات کیا ہیں؟
روپے کی گرتی ہوئی قدر اور ٹیکسوں میں اضافہ
صرف ایک سال کے دوران کاغذ کی قیمتوں میں تین گنا اضافہ ہوا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ روپے کی گرتی ہوئی قدر اوردرآمدی اشیا پر پابندی ہے۔
اس سلسلے میں سابق وائس چیئرمین آل پاکستان پیپرز مرچنٹس ایسوسی ایشن خامس سعید بٹ نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان میں کاغذ کی پروڈکشن اس کی ضرورت سے کم ہے، دوسرا وہ غیر معیاری ہے۔
مارکیٹ میں اس کا توازن کاغذ درآمد کر کے برقرار رکھا جاتا تھا لیکن پچھلے چھ ماہ سے نئی ایل سی نہیں کھل رہیں اور ہمارے سینکڑوں کنٹینر رکے پڑے ہیں جس کی وجہ سے مارکیٹ میں کاغذ کی کمی ہو گئی ہے۔
پہلے جتنی قیمت میں اے فور سائز کا معیاری درآمدی کاغذ مارکیٹ میں مل رہا تھا اب اتنی ہی قیمت میں مقامی اور غیر معیاری کاغذ مل رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ درآمدی کاغذ پر 60 فیصد ڈیوٹی لگا کر پاکستان کی مٹھی بھر ان ملوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے جو غیر معیاری کاغذ بنا رہی ہیں۔
جس کے بعد کارٹلز کو غیر معیاری کاغذ کی قیمتوں میں منہ مانگا اضافہ کرنے کا جواز مل گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’معیاری آفسٹ پیپر کی ایکس مل قیمت 820 ڈالر فی ٹن ہے جبکہ اس کی مارکیٹ میں غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مقامی ملوں نے اس کے دوسرے اور تیسرے درجے کے پیپر کی قیمت 1400 سے 1500 ڈالر فی ٹن کر دی ہے اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’وفاقی حکومت نے گذشتہ بجٹ میں مقامی پیپر ملوں کے دباؤ پر بغیر کوٹیڈ وڈ فری پیپر پر غیر قانونی طور پر 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی ہے جبکہ اس پر پہلے ہی مذکورہ آئٹم پر 11 سے 39 فیصد اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی موجود ہے۔ یہ دوہرا ٹیکس ہے اور جب قانونی طور پر اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی پہلے سے موجود ہو تو ریگولیٹری ڈیوٹی کو نافذ نہیں کیا جا سکتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایف بی آر تحقیقات کرے کہ 92 فیصد ملکی کاغذ تیار کرنے والی ملیں آٹھ فیصد درآمدی کاغذ کے مقابلے پر ملکی خزانے کو کتنا ٹیکس ادا کرتی ہیں۔‘
ان کے مطابق ’جتنا ٹیکس مقامی پیپر ملیں چوری کر رہی ہیں اس کے بعد کم از کم یہ اس قابل تو ہوتیں کہ ملکی ضروریات کا معیاری کاغذ ہی تیار کر پاتیں لیکن یہ آج تک ایسا بھی نہیں کر سکیں۔‘
کتابوں کی اشاعت پر کیا فرق پڑ رہا ہے ؟
مارکیٹ میں معیاری پیپر مہنگا ہونے کی وجہ سے وہ پبلشر جو اپنی کتابیں درآمدی پیپر پر چھاپتے ہیں ان کی قیمتیں صرف چھ ماہ میں دوگنی ہو چکی ہیں۔
جب اس کی وجہ جاننے کے لیے پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین سلیم ملک سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں پبلشنگ کا شعبہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ پہلے ہی 22 کروڑ کی مارکیٹ میں صرف معروف لکھاریوں کی کتاب ہی 1000 کی فروخت کے ہندسے کوچھوتی ہے اب وہ بھی اتنی مہنگی ہو چکی ہیں کہ پبلشر کا پیسہ پھنس گیا ہے۔ کتاب فروخت نہیں ہو رہی اور جب پہلے والی کتابیں فروخت نہیں ہوں گی تو نئی کیسے چھپیں گی؟‘
انہوں نے کہا ’اس کا اثر پرنٹنگ اور بائنڈنگ سے وابستہ روزگاروں پر بھی پڑ رہا ہے جو تیزی سے بند ہو رہے ہیں۔ ملک میں کل 400 کے قریب چھوٹے بڑے پبلشرز ہیں جو اپنا کاروبار سمیٹ رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’جہلم بک کارنر جو خوبصورت اور معیاری کتابوں کی حوالے سے جانا جاتا ہے، کے پبلشر گگن شاہد نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’صرف چھ ماہ میں کاغذ کی قیمتیں تین گنا ہو چکی ہیں۔ اسی طرح پرنٹنگ، گم ، بائنڈنگ سب کے ریٹ تین گنا بڑھ گئے ہیں۔ جو کتاب ہم 800 میں بیچ رہے تھے اور لوگ کہتے تھے مہنگی ہیں اب اس کی لاگت 2000 ہو چکی ہے ایسے میں یہ انڈسٹری کا گلا گھوٹنے کے مترادف ہے۔‘
ان کے مطابق ’چھوٹے پبلشرز جو کاغذ کریڈٹ پر لے کر کام کرتے تھے وہ تو اب بند ہو چکے ہیں اب صرف بڑے پبلشرز ہی رہ گئے ہیں جن کی حالت زار پر حکومت نے رحم نہ کیا تو پاکستان سے کتاب ختم ہو جائے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حکومت کاغذ پر درآمدی ڈیوٹیاں ختم کرے کیونکہ اس سے سرکاری خزانے کو زیادہ فرق نہیں پڑے گا لیکن دوسری جانب ملک میں علم کی فروغ میں کتاب کا کردار بڑھ جائے گا۔‘
کاغذ کے مینوفیکچرز کیا کہتے ہیں ؟
پاکستان میں دو بڑے کاروباری گروپ کاغذ کی ملیں چلاتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ تمام ملیں چھوٹی ہیں جو پلپ کے بغیر توڑی اور ری سائیکل مٹیریل سے کاغذ بنا رہی ہیں۔
ایک بڑے کاروباری گروپ کے مل مینیجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’کرونا کے بعد دنیا میں خام مال کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھی ہیں اور کاغذ کی فنشنگ میں سب سے اہم مٹیریل پلپ یعنی لکڑی کا گودا ہوتا ہے جو ہمیں درآمد کرنا پڑتا ہے اس کی قیمتیں بہت بڑھ چکی ہیں۔ پھر پاکستان میں کاغذ کی قیمتوں میں جو بحران آیا ہے اس کی بڑی وجہ ڈالر ہے۔‘
ان کے مطابق ’جب تین سال پہلے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت تین گنا بڑھ چکی ہے تو اس کا اثر قیمتوں پر بھی پڑے گا۔ اس کے ساتھ پاکستان میں بجلی کی قیمتیں بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔ اس لیے ہماری انڈسٹری عالمی انڈسٹری کا مقابلہ کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتی۔ جب امپورٹ کھولیں گے تو پھر مقامی ملیں کیسے چلیں گی۔‘