پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے پیر کو جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ ہزاروں اسرائیلی آبادکار، جن میں سینیئر حکومتی وزرا، عہدیداران اور ارکان پارلیمان شامل تھے، مسجد اقصیٰ کے احاطے میں داخل ہوئے، اس عمل کو اسرائیلی قابض افواج کی سرپرستی حاصل تھی۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اسرائیلی حکام کی موجودگی اور ان کا یہ اعلان کہ ’ٹیمپل ماؤنٹ ہمارا ہے‘ نہ صرف ایک نفرت انگیز دعویٰ ہے بلکہ عالمی سطح پر مذہبی جذبات کو مجروح کرنے، صورت حال کو مزید کشیدہ کرنے اور مسجد الاقصیٰ کی حیثیت تبدیل کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔
مقبوضہ بیت المقدس میں واقع مسجد اقصیٰ میں اسرائیل کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر نے اتوار کو مسجد کے احاطے میں یہودی دعا کا عوامی طور پر انعقاد کیا تھا۔ یہ ایک انتہائی متنازع اقدام ہے جو اس مقام پر طے شدہ پرانے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
مسجد اقصیٰ اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے، جبکہ یہودیوں کے نزدیک بھی یہ سب سے مقدس جگہ ہے، جہاں ان کے پہلے اور دوسرے ہیکل واقع تھے۔
یہاں یہودی مذہبی رسومات کی ادائیگی اسرائیل اور اس مقام کے متولی اردن کے درمیان طے شدہ پرانے معاہدے کے تحت ممنوع ہے۔
وزارت خارجہ نے کہا کہ اسرائیل کے یہ اقدامات ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے اور امن کے کسی بھی ممکنہ راستے کو روکنے کی کوشش ہیں۔ ان کارروائیوں سے خطے میں پرتشدد صورتحال جنم لینے کا خدشہ ہے۔
پاکستان نے ان اقدامات کو بین الاقوامی انسانی و انسانی حقوق کے قوانین، اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور متعدد اقوامِ متحدہ و او آئی سی قراردادوں کی ’کھلی خلاف ورزی‘ قرار دیا۔
اسلام آباد نے عالمی برادری، بالخصوص اقوامِ متحدہ، سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو اس کے اقدامات پر جوابدہ ٹھہرائے اور مسجد اقصیٰ کے تقدس اور فلسطینی عوام کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے، خاص طور پر ان کے حقِ خودارادیت کا۔
بیان کے آخر میں پاکستان نے ایک مرتبہ پھر اپنے اس مؤقف کا اعادہ کیا کہ ایک خودمختار، آزاد، قابلِ عمل اور باہم مربوط فلسطینی ریاست کا قیام، جو جون 1967 سے قبل کی سرحدوں پر مبنی ہو اور جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو، ہی مسئلہ فلسطین کا پائیدار حل ہے۔
’مسجد اقصٰی میں اسرائیلی وزیر کی اشتعال انگیزی انسانیت کے ضمیر پر حملہ ہے‘
اس سے قبل پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے مقبوضہ بیت المقدس میں واقع مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی وزیر کی اشتعال انگریز حرکت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ انسانیت کے اجتماعی ضمیر پر حملہ ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے ایک بیان میں کہا کہ ’اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک کی یہ بےحرمتی نہ صرف ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے عقیدے کی توہین ہے بلکہ بین الاقوامی قانون اور انسانیت کے اجتماعی ضمیر پر بھی براہ راست حملہ ہے۔‘
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ’قابض طاقت کی طرف سے اس طرح کی منظم اشتعال انگیزیاں‘ امن کے امکانات کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ ’اسرائیل کے بےشرمانہ اقدامات جان بوجھ کر فلسطین اور وسیع خطے میں تناؤ کو ہوا دے رہے ہیں اور مشرق وسطیٰ کو مزید عدم استحکام اور تنازعات کے قریب دھکیل رہے ہیں۔‘
پاکستانی وزیراعظم نے ایک بار پھر بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق غزہ میں فوری جنگ بندی، تمام جارحیت کے خاتمے اور ایک قابل اعتماد امن عمل کی کوششوں پر زور دیا ہے۔
اس سے قبل سعودی عرب نے بھی اتوار کو اسرائیلی حکومت کے عہدیداروں کی مسجد اقصٰی میں بار بار کی جانے والی ’اشتعال انگیز حرکات‘ کی شدید مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اس طرح کے اقدامات خطے میں تنازع کو ہوا دیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حالیہ برسوں میں یہودیوں بشمول اسرائیلی پارلیمان کے ارکان کی جانب سے بار ہا اس معاہدے کی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں، تاہم اسرائیلی میڈیا کے مطابق اتمار بن گویر کا اتوار کا دورہ پہلا موقع ہے کہ کسی سرکاری وزیر نے یہاں عوامی طور پر دعا کی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے ایک بیان میں کہا کہ ’ٹیمپل ماؤنٹ (مسجد اقصیٰ) پر سٹیٹس کو برقرار رکھنے کی اسرائیل کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور یہ بدستور برقرار رہے گی۔‘
اتمار بن گویر نے یہ اقدام ایک نہایت علامتی دن پر کیا۔ عبرانی کیلنڈر کے مطابق اتوار کو ’تیشا بآو‘ کا دن تھا، جو یہودی ہیکلوں کی تباہی کی یاد میں رکھا گیا روزہ ہے، جن کا مقام آج کا مسجد اقصیٰ کا احاطہ ہے۔
اتمار بن گویر نے مسجد کے احاطے میں اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’اسرائیل کو اس ہفتے فلسطینی عسکریت پسند گروہوں کی جانب سے جاری کی گئی دو اسرائیلی قیدیوں کی ’ہولناک ویڈیوز‘ کا جواب اسی طرح دینا چاہیے کہ ’پوری غزہ کی پٹی پر اسرائیلی خودمختاری نافذ کی جائے‘ جیسے یہ ٹیمپل ماؤنٹ پر کی گئی۔
اسرائیل نے 1967 میں مشرقی مقبوضہ بیت المقدس پر قبضہ کر کے اسے ضم کر لیا تھا، جسے بین الاقوامی برادری کی بڑی تعداد نے تسلیم نہیں کیا۔
اتمار بن گویر کے اس اقدام کو اسرائیلی بائیں بازو کے اخبار ہاریٹز نے ’اشتعال انگیزی‘ قرار دیا، جب کہ فلسطینی اتھارٹی نے اسے ’خطرناک اشتعال انگیزی‘ کہا۔ سعودی عرب کے علاوہ اردن نے بھی اس کی مذمت کی۔