کاغذ کی درآمد رکنے سے اہم دستاویزات، کتابوں کی چھپائی متاثر

درآمدی کاغذ کے کنٹینرز دو ماہ سے کراچی پورٹ پر رکے ہوئے ہیں اور ملک میں سپلائی متاثر ہو رہی ہے جس سے کاغذ کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔

نگران وزیر تعلیم پنجاب منصور قادر نے بتایا کہ کاغذ کی واقعی قلت ہے جس سے مارکیٹ میں کتابوں کی اشاعت متاثر ہورہی ہے (پیکسلز)

پاکستان میں ان دنوں معاشی بحران کے باعث کاغذ کی درآمد بھی رکی ہوئی ہے جس کے باعث ایک طرف تاجروں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہورہا ہے تو دوسری جانب بینکوں کے چیک و دیگر قیمتی دستاویزات اور کتابوں کی چھپائی متاثر ہورہی ہے۔

درآمدی کاغذ کے کنٹینرز دو ماہ سے کراچی پورٹ پر رکے ہوئے ہیں اور ملک میں سپلائی متاثر ہو رہی ہے جس سے کاغذ کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔

آل پاکستان پیپر مرچنٹ ایسوسی ایشن (اے پی پی ایم اے) کے مطابق غیر ملکی کاغذ بینکوں کے چیک، نوٹ اور سٹام پیپر چھاپنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اسی طرح تعلیمی اداروں کی بیشتر کتابوں کی چھپائی بھی اسی کاغذ سے ہوتی ہے لیکن ایل سی نہ کھلنے سے سارا مال دو ماہ سے بندر گاہ پر رکا ہوا ہے۔

دوسری جانب مقامی طور پر بننے والا کاغذ بھی مارکیٹ میں قلت کا شکار ہے جس سے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کو مسائل کا سامنا ہے۔

اردو بازار لاہور کے صدر اور پبلشر خالد پرویز نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سال بچوں کو مفت کتابوں کی فراہمی مشکلات کا شکار ہورہی ہے کیونکہ اربوں روپے کا اضافی فنڈ رکنے سے ٹیکسٹ بک بورڈ پبلشرز کو ادائیگیاں نہیں کرسکا لہذا انہوں نے کتابوں کی چھپائی روک دی ہے۔

اس مسئلے پر فوری قابو نہ پایا گیا تو رواں سال ہونے والے امتحانات کے انعقاد میں دشواری کا سامنا کرنا ہڑ سکتا ہے۔

البتہ نگران صوبائی وزیر تعلیم پنجاب اس معاملہ میں فنڈز کے اجرا اور امتحانات کے بروقت انعقاد کی کوششوں میں کامیابی کے لیے پر امید ہیں۔

کاغذ کی قلت کیوں پیدا ہوئی؟

آل پاکستان پیپرز مرچنٹ ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین محمد انیس نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سٹیٹ بینک ڈالرز کی کمی کے باعث ایل سی نہیں کھولنے دیتا اور دوسرے ممالک سے درآمد ہونے والا کاغذ کنٹینروں میں کراچی بندر گاہ پر دو ماہ سے رکا پڑا ہے۔

انیس کے بقول دو ماہ کے دوران اب تک مجموعی طور پر تین ہزار ٹن تک درآمدی کاغذ بندر گاہ پر رکا ہوا ہے ایک کنٹینرکا ایک دن کا خرچ سو ڈالر تک ہے جبکہ 65 فیصد ڈیوٹی الگ ہے اس طرح سینکڑوں مرچنٹس کا مال رکنے سے کروڑوں روپے کا الگ سے نقصان ہورہا ہے۔

’یہی کاغذ اگر فوری ہمیں مل بھی جائے تو کاغذ کی قیمتیں جو پہلے سے بڑھ چکی ہیں ان میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔‘

ان کے مطابق درآمد ہونے والا کاغذ سکیورٹی پیپر کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اور کتابوں و دیگر پبلشنگ کے لیے بھی کام آتا ہے۔ نوٹ، چیک بک، بانڈ، سٹام پیپر سمیت کئی اہم دستاویزات بھی اسی کاغذ سے بنتی ہیں جس طرح کاغذ کی درآمد رکی ہے اس سے قلت مزید زیادہ ہوگی۔

انیس نے کہا کہ جہاں تک لوکل بننے والے کاغذ کی بات ہے تو وہ غیر ملکی کاغذ کی طرح معیاری نہیں ہوتا کیونکہ یہاں کچرے سے پیپر تیار ہوتا ہے وہ اتنا معیاری نہیں ہوتا کہ اس سے اہم دستاویز یا کتابیں چھپ سکیں۔

ویسے بھی ان دنوں مقامی طور پر تیار ہونے والا پیپر بھی ڈیمانڈ بڑھنے سے کم دستیاب ہے اور ملتا بھی ہے تو درآمدی کاغذ کی قیمت میں ہی پڑ رہا ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری ایل سی کھولنے کی اجازت دے اور ڈیوٹی میں رعایت دے تو کاغذ کی قلت پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کاغذ کی قلت سے پیدا ہونے والی مشکلات

اردو بازار لاہور کے صدر اور پبلشر خالد پرویز نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب سے پبلشرز کو ادائیگیاں روک دی گئی ہیں اور کاغذ بھی دستیاب نہیں۔ اگر ملتا بھی ہے تو مہنگا مل رہا ہے جس سے حکومت کی طرف سے ملنے والی کتابوں کی تیاری پر لاگت دگنا ہوگئی ہے۔

خالد پرویز نے کہا کہ کتابوں کی چھپائی نہ ہونے کے باعث آئندہ نئی کلاسوں کے لیے بچوں جو کتابیں پوری طرح فراہم کرنا مشکل ہوگا کیونکہ ایک طرف کاغذ کی قلت دوسری طرف حکومتی فنڈز کی عدم دستیابی مسائل کا سبب بن رہی ہے۔

جتنے بھی پبلشرز ہیں ان کا کاروبار بھی شدید متاثر ہورہا ہے اور مزدور بھی فارغ ہو رہے ہیں حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر اس جانب توجہ دے ورنہ نقصان زیادہ ہوجائے گا۔

خالد پرویز کے بقول پہلے صوبہ بھر کے سکولوں میں فراہمی کے لیے تیار ہونے والی کتابوں کی لاگت چھ سے سات ارب روپے تھی جو اب بڑھ کر 14ارب تک پہنچ چکی ہے۔

ان حالات میں اس سال بچوں کے امتحانات میں بھی تاخیر کا خدشہ ہے کیونکہ کتابیں دستیاب نہ ہونے کے باعث اورامتحان میں استعمال ہونے والی جوابی کاپیاں پبلش نہ ہونے سے مسائل بڑھیں گے اور بچوں کی تعلیم بھی متاثر ہوسکتی ہے۔

دوسری جانب نگران وزیر تعلیم پنجاب منصور قادر نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس معاملہ پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ کاغذ کی واقعی قلت ہے جس سے مارکیٹ میں کتابوں کی اشاعت متاثر ہورہی ہے۔

اگر کہیں کاغذ مل بھی رہا ہے تو اس کی قیمت پہلے سے کافی زیادہ ہے لہذا پبلشرز کی ڈیمانڈ کے مطابق پنجاب ٹیکسٹبک بورڈ نے کتابوں کی چھپائی کے کیے چھ، سات سے بڑھا کر 14 ارب روپے تک ڈیمانڈ کیے ہیں۔

منصور قادر کے بقول: ’ہم اس کا تھرڈ پارٹی جائزہ کرا رہے ہیں تاکہ مارکیٹ میں کاغذ کی قیمتوں اور مہنگائی کے مطابق تسلی کی جاسکے اسی لیے فنڈز روکے گئے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’جیسے ہی اس بارے میں مکمل معلومات حاصل ہوجائیں گی ہم سمری وزیر اعلی کو بھیج دیں گے تاکہ وہ بچوں کی کتابوں کی چھپائی کے لیے ٹیکسٹ بک بورڈ کی ڈیمانڈ کے مطابق فنڈز جاری کرنے کا حکم دیں اور محکمہ خزانہ فنڈزجاری کر دے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان