ٹیکس: مقامی، امپورٹڈ گاڑیاں مہنگی، فروخت میں واضح کمی

وفاقی حکومت نے مئی میں آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت لگژری اشیا پر پابندی عائد کی تھی جس میں گاڑیوں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

گاڑیوں کو بلٹ پروف بنانے والی ایک فیکٹری بتاریخ دو اگست 2013 (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان میں بننے والی گاڑیوں کی بلند قیمتیں اور بیرون ملک سے منگوائی جانے والی گاڑیوں پر ڈیوٹی میں اضافے کے بعد پاکستان میں گاڑی خریدنا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

عباداللہ گذشتہ چھ مہینوں سے گاڑی خریدنے کی تگ ودو میں ہیں تاہم وہ پاکستان میں بننے والی گاڑی کے بجائے بیرون ملک سے منگوائی جانے والی گاڑی خریدنا چاہتے ہیں جب کہ حکومت کی جانب سے امپورٹڈ گاڑیوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھانے کی وجہ سے یہ گاڑی بھی ان کی قوت خرید سے باہر ہو چکی ہے۔

عباد کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں بنائی جانے والی گاڑیوں کی قیمتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ بغیر ایئر بیگ کی گاڑیاں بھی آج کل 30 لاکھ روپے تک فروخت کی جا رہی ہیں جب کہ امپورٹڈ گاڑیوں میں چاہے کتنے بھی پرانے ماڈل کی گاڑی ہو اس میں فیچرز پاکستانی گاڑیوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں۔‘

عباد اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گاڑیوں کی امپورٹ ڈیوٹی بڑھانے کی وجہ سے عوام کو کوئی فائدہ تو نہیں مل رہا تاہم مقامی سطح پر گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کو فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے کیوں کہ تمام کمپنیوں نے گاڑیوں کی قیمتیں اتنی بڑھا دی ہیں کہ گاڑی عوام کی دسترس سے دور ہوتی جارہی ہے۔‘

وفاقی حکومت نے مئی میں آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت لگژری اشیا پر پابندی عائد کی تھی جس میں گاڑیوں کو بھی شامل کیا گیا تھا لیکن بعد میں گاڑیوں کی امپورٹ سے پابندی ہٹا لی گئی تھی تاہم حکومت نے امپورٹڈ گاڑیوں پر ڈیوٹی ٹیکس تقریبا 300 فیصد بڑھا دیا ہے۔

گاڑیوں کے کاروبار سے وابستہ افراد کے مطابق پہلے جو گاڑی 40 لاکھ کی مل رہی تھی اب وہ 60 لاکھ تک مل رہی ہے۔

پاکستانی گاڑیوں کی قیمتیں اب کیا ہیں؟

امپورڈ گاڑیوں پر پہلے پابندی اور بعد میں ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ڈالر کی اونچی اڑان کی وجہ سے ٹویوٹا، ہنڈا سمیت تمام کمپنیوں نے گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔

وفاقی محکمہ خزانہ کی جانب سے رواں سال اگست میں جاری نوٹیفکیشن کے مطابق ایک ہزار سے 1300 سی سی کے درمیان کی امپورٹڈ گاڑیوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی 15 فیصد سے بڑھا کر اب 100 فیصد کردی گئی ہے۔ اس کے علاوہ جو لگژری گاڑیاں ہے، اس پر بھی ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھا دی گئی ہے۔

اسی طرح ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافے کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کی کسٹم ڈیوٹی میں بھی اضافہ کیا گیا ہے اور مبصرین کے مطابق اسی ڈیوٹی میں اضافے کی وجہ سے مقامی سطح پر بنانے والے گاڑیوں کی کمنپیوں نے قیمتیں بڑھا دی ہیں۔

پاکستان میں ٹویوٹا کی مشہور گاڑی گرانڈے (1800سی سی) کی قیمت امپورٹد گاڑیوں پر ٹیکس میں اضافے کے بعد تقریباً 57 لاکھ روپے ہے جب کہ یہی قیمت چند مہینے پہلے تقریباً 40 لاکھ روپے تھی۔

اسی طرح ٹویوٹا ہی کی آلٹس گاڑی پہلے 34 لاکھ تک ملتی تھی لیکن اب اس قیمت بڑھ کر 46 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر ہنڈا کی گاڑیوں کی بات کی جائے تو ہنڈا سوک جو چند مہینے پہلے 37 لاکھ کی ملتی تھی اب اس کی قیمت بڑھ کر تقریباً 60 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔

اسی طرح ہنڈا کی مشہور بجٹ گاڑی ہنڈا سٹی جو پہلے 29 لاکھ تک بکتی تھی اب اس کی قیمت بڑھ کر تقریباً 42 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔

پاکستانی مارکیٹ میں نئی آنے والی کمپنیوں نے بھی گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔

کورین کمپنی ’کیا‘ کی بات کی جائے تو پاکستان میں زیادہ بکنے والی ایس یو وی گاڑی کیا سپورٹیج کا بنیادی ویریئنٹ لانچ کے وقت تقریباً 42 لاکھ کا تھا لیکن اب اس کی قیمت بڑھ کر تقریبا 57 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔

گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہی واحد مسئلہ نہیں بلکہ صارفین کے مطابق گاڑیوں کی بکنگ کے بعد ڈیلیوری میں تاخیر بھی بڑا مسئلہ ہے۔

امپورٹڈ گاڑیاں مہنگی ہونے کی وجہ سے اگر عوام کی دسترس سے دور ہیں تو دوسری جانب مقامی سطح پر گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں وقت پر گاڑیاں ڈیلیور نہیں کر پا رہیں۔

گاڑیوں کی خریدو فروخت میں کمی

مبصرین سمجھتے ہیں کہ گاڑیوں کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے کمنپیوں کی سیل میں بھی کمی دیکھی گئی ہے جو ستمبر کے اعداد و شمار سے واضح ہے۔

پاکستان آٹو موبیل ایسوسی ایشن جو ہر ماہ گاڑیوں کی سیل کے بارے میں اعداد و شمار جاری کرتی ہے کہ مطابق گاڑیوں کی سیل میں پچھلے سال کے مقابلے میں 50  فیصد کمی آئی ہے جب کہ رواں سال اگست کے مقابلے میں ستمبر میں بھی سیل میں کمی کا تناسب سامنے آیا ہے۔

ٹویوٹا کی بات کی جائے تو کمپنی نے ستمبر میں گاڑیوں کے 2617 یونٹس فروخت کیے ہیں جب کہ اگست میں یہ یونٹس تین ہزار 876 تھے جو تقریباً 32 فیصد کمی ہے۔

اسی طرح ہنڈا کمپنی نے ستمبر میں 1280 یونٹس فروخت کیے ہیں جو اگست کے 1809 یونٹس کے مقابلے میں تقریباً 29 فیصد کی کمی ہے۔

 ہنڈائی نشاط کی سیل میں تقریباً 50 فیصد کمی دیکھی گئی ہے جب کہ سوزوکی کی سیل تقریباً 56 فیصد کم ہوگئی ہے۔

مقامی سطح پر بننے والی گاڑیوں کی فروخت کے ساتھ باہر سے گاڑیوں کی امپورٹ میں بھی کمی آئی ہے۔

پاکستان ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق بیرون ملک سے مکمل گاڑی کی امپورٹ میں اگست کے مقابلے میں ستمبر میں تقریباً 38 فیصد کمی آئی ہے۔

ستمبر کے مہینے میں اعداد وشمار کے مطابق سب سے زیادہ بکنے والی گاڑی سوزوکی آلٹو ہے جس کے 2372 یونٹس بکے ہیں جب کہ دوسرے نمبر پر زیادہ بکنے والی گاڑی کرولا اور یارس ہیں جس کی مجموعی طور پر 1747 یونٹس فروخت ہوئے ہیں اور تیسرے نمبر پر سوزوکی سوئفٹ گاڑی کے 1263 یونٹس فروخت ہوئے۔

کاروباری طبقہ کیا کہتا ہے؟

خضر ریاض پشاور میں امپورٹڈ گاڑیوں کی خریدو فروخت کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور امپورٹڈ گاڑیوں پر ٹیکس بڑھنے سے پریشان ہیں۔

 انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافے کی وجہ سے جو گاڑی پہلے 20 لاکھ کی تھی اب وہی تقریباً 30 لاکھ تک ملتی ہے تو لوگ اتنی زیادہ قیمت میں گاڑی نہیں خریدتے۔‘

انھوں نے بتایا ’پہلے ہم اگر مہینے میں 10 گاڑیاں منگواتے تھے تو اب کم ہو کر ایک گاڑی پر آگئے ہیں کیوں کہ خریدنے والے کم ہوگئے ہیں۔‘

ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا مقامی سطح پر گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں اس صورت حال سے فائدہ اٹھا رہی ہیں؟

اس کے جواب میں خضر کا کہنا تھا کہ ’ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امپورٹڈ گاڑیاں مہنگی ہوتیں تو مقامی سطح پر گاڑیاں اگر سستی نہیں تو کم از کم قیمتیں برقرار رکھنی چاہیں تھیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘ 

انھوں نے بتایا کہ ’مقامی کار ساز کمپنیوں کے لیے موقع تھا کہ قیمتیں برقرار رکھتیں تاکہ لوگ مناسب قیمت پر گاڑیاں خریدتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ مقامی سطح پر بننے والی گاڑیوں کی قیمتیں مزید بڑھا دی گئیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے اس بارے میں موقف لینے کے لیے ٹویوٹا کے ترجمان اسامہ صدیقی سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے بتایا کہ کمپنی سی ای او ملک سے باہر ہیں اور صرف وہی اس معاملے پر کمپنی کا موقف دے سکتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت