خیبرپختونخوا: 50 مہنگی گاڑیاں وی آئی پی پروٹوکول کے لیے مختص

خیبر پختونخوا میں جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، 50 مہنگی گاڑیاں وی وی آئی پیز کے پروٹوکول کے لیے استعمال ہونے کا انکشاف ہوا ہے، تاہم ترجمان صوبائی حکومت کہتے ہیں کہ گاڑیاں قواعد وضوابط اور پروٹوکول کے مطابق الاٹ کی گئی ہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان کا قافلہ 10 نومبر 2021 کو اسلام آباد میں سپریم کورٹ سے روانہ ہو رہا ہے، جب عمران خان کو 2014 میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے پر عدالت عظمیٰ میں طلب کیا گیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ہمیشہ سادگی اور سرکاری وسائل کے کم سے کم استعمال کی بات کی ہے، تاہم خیبر پختونخوا میں جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، 50 مہنگی گاڑیاں وی وی آئی پیز کے پروٹوکول کے لیے استعمال ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کئی مرتبہ اس بات کا اعلان بھی کرچکے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں کسی قسم کا وی آئی پی پروٹوکول نہیں دیا جائے گا اور نہ ہی وی آئی پیز کے لیے ٹریفک روکی جائے گی۔

دسمبر 2015 میں عمران خان نے ملتان میں ایک جلسے سے خطاب میں کہا تھا: ’خیبر پختونخوا میں وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہوگا اور کسی بھی وی آئی پی کے ٹریفک کی روانی نہیں روکی جائے گی۔‘

اسی طرح پی ٹی آئی نے ہی 2018 میں ایئرپورٹ پر شخصیات کو دیے جانے والے وی آئی پی پروٹوکول کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔

تاہم وعدوں اور اعلانات کے باجود سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں 50 مہنگی گاڑیاں وی وی آئی پیز کے پروٹوکول کے لیے مختص ہیں۔

مزید پڑھیے: پروٹوکول کی تاریخ: احساس برتری جتانے کا ذریعہ

گذشتہ ہفتے جمعیت علمائے اسلام کے رکن خیبر پختونخوا اسمبلی نعیمہ کشور کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کی جانب سے اعدادوشمار پیش کیے گئے، جن کے مطابق 50 پروٹوکول گاڑیوں میں سات بلٹ پروف گاڑیاں بھی شامل ہیں، جو مختلف محکموں میں وی وی آئی پیز کے پروٹوکول کے لیے مختص ہیں۔

اعدادوشمار کے مطابق ان میں بلٹ پروف لینڈ روور 2010 ماڈل کی گاڑیاں شامل ہیں جبکہ تین بلٹ پروف مرسیڈیز بینز گاڑیاں ہیں، جن میں سے ایک گاڑی وفاقی حکومت کے پاس ہے جبکہ دو گاڑیاں کیبنٹ ڈویژن کے لیے مختص ہیں۔

اسی طرح سرکاری دستاویزات کے مطابق ان 50 گاڑیوں میں تین لینڈ کروزر گاڑیاں، دو بی ایم ڈبلیو گاڑیاں اور چار ویگو گاڑیاں شامل ہیں۔ جس میں سے ایک فوڈ ڈپارٹمنٹ، دو قبائلی اضلاع اور ایک ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے لیے مختص ہے، جو وی وی آئی پیز کے پروٹوکول کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

ان ہی دستاویزات کے مطابق ان گاڑیوں میں 14 ٹویوٹا آلٹس، مارک ٹو اور مارک ایکس گاڑیاں بھی شامل ہیں، جو پروٹوکول کے لیے استعمال کی جاتی ہیں اور انہیں مختلف محکموں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔

اسی طرح ان گاڑیوں میں دو ٹویوٹا جی ایل آئی، ایک ہنڈا سوک، ایک ٹویوٹا فیلڈر اور ایک ہنڈا سٹی گاڑی بھی شامل ہے جو ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور ہائی کورٹ کے لیے مختص ہے۔

پروٹوکول کے لیے مختص باقی گاڑیوں میں ٹویوٹا ہائی ایس، سوزوکی کلٹس اور ہنڈائی شہزور گاڑیاں بھی شامل ہیں، جو وی وی آئی پیز کے پروٹوکول میں استعمال کی جاتی ہے۔

دستاویزات کے مطابق محکمہ ٹرانسپورٹ و انتظامیہ کے پاس مجموعی طور پر 115گاڑیاں ہیں، جن میں سے 50 وی وی آئی پیز پروٹوکول جبکہ باقی گاڑیاں وزرا، مشیروں اور وزیر اعلیٰ کے معاونین استعمال کرتے ہیں جبکہ ان ہی گاڑیوں میں سے 11 صوبے کے دیگر شہروں میں موجود سرکاری رہائش گاہوں میں استعمال کی جاتی ہیں۔

ان گاڑیوں میں سے پانچ خیبر پختونخوا ہاؤس، اسلام آباد میں استعمال کی جاتی ہیں تاہم دستاویزات میں یہ تفصیل موجود نہیں ہے کہ یہ گاڑیاں وہاں کس مقصد کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

اسی طرح ایک گاڑی خیبر پختونخوا ہاؤس نتھیاگلی، ایک پشاور کے شاہی مہمان خانے میں، ایک سول آفیسر میس پشاور میں، ایک گاڑی خیبر پختونخوا ہاؤس ایبٹ آباد میں، ایک کالام اور ایک گاڑی سرکٹ ہاؤس پشاور کے لیے مختص ہے۔

دستاویزات کے مطابق صوبائی وزیر صحت و خزانہ تیمور سلیم جھگڑا واحد وزیر ہیں، جنہوں نے سرکاری گاڑی محکمے کو واپس کی ہے۔

وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت چلے جانے کے بعد جب سے پارٹی سربراہ عمران خان پشاور میں ہیں، ان پر خیبر پختونخوا حکومت کے سرکاری ہیلی کاپٹر سمیت دیگر سرکاری وسائل کے استعمال کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔

تاہم پیر کو پشاور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران جب عمران خان سے اس الزام کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کہا تھا: ’وزیراعلیٰ محمود خان وزیراعلیٰ بھی ہیں لیکن یہاں کے شہری بھی ہیں اور وہ یہ وسائل عوام کے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اگر وہ سیاسی جلسوں میں جا کر سرکاری وسائل استعمال کرتے ہیں تو یہ کام وہ عوامی مفاد میں کرتے ہیں۔‘

اسی طرح عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں پر یہ الزام بھی عائد کیا جارہا ہے کہ وہ پشاور میں سرکاری رہائش گاہ استعمال کرتے ہیں۔

عمران خان نے گذشتہ روز گلگت بلتستان سے آئے ہوئے گلگت کے وزیراعلیٰ اور کابینہ سے پشاور میں وزیراعلیٰ ہاؤس کے ایک ہال میں ملاقات کی اور اپوزیشن کے مطابق یہ سیاسی مقاصد کے لیے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال ہے۔

یہ بھی پڑھیے: ’عمران خان سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کرنے میں حق بجانب ہیں‘

سرکاری گاڑیوں کے استعمال کے حوالے سے سوال اٹھانے والی رکن اسمبلی نعیمہ کشور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’اب پتہ چل گیا ہے کہ جس عمران خان نے وی وی آئی پی پروٹوکول کے خاتمے کا اعلان کیا تھا، ان ہی کے صوبے میں وی وی آئی پیز پروٹوکول کے لیے 50 گاڑیاں مختص ہیں۔‘

نعیمہ کشور نے کہا: ’یہ سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال ہے۔ اب بھی پی ٹی آئی کی پوری قیادت پشاور میں موجود ہے اور جس وزیراعلیٰ ہاؤس کو وہ عوام کے لیے کھولنے اور جس میں وہ یونیورسٹی کھولنے کی بات کرتے تھے، اب اسے ذاتی ڈیرہ بنا رکھا ہے اور اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘

وی وی آئی پی پروٹوکول کے لیے مختص گاڑیاں اور سرکاری وسائل سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے صوبائی ترجمان بیرسٹر علی سیف سے پوچھا، جن کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے گاڑیاں قواعد وضوابط اور پروٹوکول کے مطابق الاٹ کی ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’گورنر اور وزیراعلیٰ کے استعمال کے لیے بڑی گاڑیاں رکھی گئی ہیں اور دہشت گردی کے عنصر کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بلٹ پروف گاڑیاں بھی استعمال کی جاتی ہیں۔‘

بیرسٹر سیف کے مطابق صوبائی وزرا، معاونین اور مشیروں کے پاس فور ویل گاڑیاں ہیں جو دور افتادہ پہاڑی علاقوں کے دورے کے موقع پر کارآمد ثابت ہوتی ہیں اور اگر صوبائی وزرا، معاونین اور مشیر اس سے بڑی گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں تو وہ ان کی ذاتی ہوں گی۔

انہوں نے مختلف شہروں کی سرکاری رہائش گاہوں میں موجود گاڑیوں کے حوالے سے بتایا کہ گورنر اور وزیراعلیٰ کے اسلام آباد کے علاوہ صوبے کے مختلف علاقوں کے دورے کے پیش نظر مختلف ہاؤسز میں گاڑیاں رکھی گئی ہیں تاکہ بوقت ضرورت استعمال کی جا سکیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان