کیا گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں پاکستان میں کام بند کر رہی ہیں؟

ماہرین کے مطابق پاکستان کی آٹو انڈسٹری میں آج تک اتنا خطرناک بحران نہیں دیکھا گیا۔ اس دفعہ نہ صرف روپیہ ریکارڈ حد تک گر گیا ہے بلکہ بیرون ملک سے گاڑیوں کے پارٹس درآمد کرنے کی قیمت میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوگیا ہے۔

گاڑیوں کو بلٹ پروف بنانے والی ایک فیکٹری بتاریخ دو اگست 2013 (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان میں گاڑیاں بنانے والی کئی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے پرانے آرڈرز کے بیک لاگ کو ختم کرنے کے لیے نہ صرف نئے آرڈرز کی بکنگ روک رہی ہیں بلکہ اپنے آپریشنز کو بند بھی کر رہی ہیں مگر کچھ کمپنیوں نے اس کی تردید کی ہے۔

آٹو ماہرین کے مطابق پاکستان کی کار ساز کمپنیوں کو ایک ساتھ شٹ ڈاؤن کرنا ہوگا نہیں تو اس سے بحران اور سنگین ہوجائے گا البتہ دیگر کا کہنا ہے کہ حالات اب بہتری کی طرف جائیں گے۔

آٹو کمپنیاں کیوں شٹ ڈاؤن ہو رہی ہیں؟

سوزوکی موٹرز کے ترجمان شفیق اے شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگست 2022 میں متوقع غیر پیداواری دنوں (پلانٹ شٹ ڈاؤن) کی وجہ سے پاک سوزوکی نے یکم جولائی سے بکنگ بند کر دی ہے۔ سٹیٹ بینک نے ایچ ایس کوڈ 8703 کے تحت آٹو پارٹس کی درآمد کی پیشگی منظوری پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ ان پابندیوں نے آٹو پارٹس کے درآمدی کنسائنمنٹس کی کلیئرنس کو بری طرح متاثر کیا ہے۔‘

’جولائی کے مہینے میں پاک سوزوکی کی پروڈکشن بند نہیں ہوئی کیوں کہ ہم نے اپنا پروڈکشن پلان ایڈجسٹ کیا تھا۔ اس وقت کمرشل بینکس گاڑیوں کے پارٹس درآمد کرنے کے لیے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) نہیں کھول رہے۔ CKDs اور متعلقہ خام مال کی عدم دستیابی کے نتیجے میں اگست 2022 میں پلانٹ بند ہو سکتا ہے۔ اگر یہی صورت حال جاری رہی تو اگست 2022 سے ہمارے لیے بڑی مشکلات کا سامنا ہے۔‘

’CKD کا مطلب ہے Completely Knocked Down parts یعنی وہ پارٹس جو بیرون ملک سے درآمد کیے جاتے ہیں اور مقامی پلانٹ میں انہیں assemble کر کے گاڑی میں لگایا جاتا ہے۔ ان کی امپورٹ ڈیوٹی کم ہوتی ہے مگر ان کی درآمد میں کافی وقت لگتا ہے۔ اس کے علاوہ گاڑیوں کے لیے CBU یعنی  Completely Built Up parts بھی درآمد کیے جاتے ہیں۔ یہ اپنی اصل حالت میں ہی گاڑیوں میں لگا دیے جاتے ہیں جب کہ ان کی امپورٹ ڈیوٹی کافی زیادہ ہوتی ہے۔‘

’سوزوکی کی جانب سے گاڑیوں کی بکنگ کا آغاز سٹیٹ بینک کی درآمدی پالیسی میں نرمی پر منحصر ہے۔ ایک ذمہ دار تنظیم کے طور پر، ہم جون 2022 تک بک کرائی گئی تمام گاڑیاں فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

KIA موٹرز کے ایک نمائندے نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’کمپنی نے رواں ماہ تین سے چار دنوں تک اپنے آپریشن شٹ ڈاؤن کیے اور اب ہفتے کے روز بھی پلانٹ غیر فعال رہے گا۔ جب تک ایل سی یعنی لیٹر آف کریڈٹ کا مسئلہ حل نہیں ہوجاتا یہ شیڈیول جاری رہے گا اور کمپنی صرف ایک شفٹ میں کام کرے گی۔‘

انڈس موٹرز کے سی ای او علی اصغر جمالی نے کہا کہ ’ ہم میڈیا میں گردش کرنے والی خبروں کی تردید کرتے ہیں۔ ابھی تک اگست کے مہینے میں دو ہفتوں سے زیادہ مکمل پلانٹ بند کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ موجودہ پلان کے مطابق پلانٹ اگست میں صرف 10 دن تک بند رہے گا۔ کمپنی کا پروڈکشن شیڈول اور کوئی بھی غیر پیداواری دن (نان پروٍدکشن ڈے) متعدد بیرونی اور متغیر عوامل پر منحصر ہیں۔ کمپنی فعال طور پر اپنی پیداوار اور آپریشنز کی نگرانی کر رہی ہے اور موجودہ چیلنجوں کے خاتمے کے لیے حکومت پاکستان اور سٹیٹ بینک کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔‘

آٹو کمپنیاں بند ہونے سے کیا مسائل پیش آرہے ہیں؟

پاکستان آٹو انڈسٹری سے تین دہائیوں سے وابستہ اور پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو موٹو پارٹس اینڈ اسیسریز مینوفیکچرر (پیپم) کے سابق چئیرمین محمد مشہود علی خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان کی آٹو انڈسٹری تاریخ کے بد ترین بحران سے گزر رہی ہے۔ آٹو کمپنیاں اپنے آپریشنز بند کر رہی ہیں اور لوگوں کے پیسے ریفنڈ کر رہی ہیں کیوں وہ وقت پر آرڈرز نہیں دے پا رہیں۔‘

’اس کی وجہ ہے آٹو کمپنیوں کا درآمدی پارٹس پر بے حد انحصار، جس پر حکومت نے انتہائی سخت پابندیاں لگائی ہوئی ہیں۔ مقامی پارٹس بنانے والی کمپنیاں بھی اب اس بحران کی لپیٹ میں آرہی ہیں کیوں کہ تمام کمپنیاں صرف اپنا سوچ کر الگ الگ وقت پر آپریشنز بند کر رہی ہیں۔ پاکستان کی تمام آٹو کمپنیوں کو ایک ساتھ بیٹھ کر ایک شٹ ڈاؤن پالیسی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔‘

’KIA موٹرز اب ہفتے کے روز اپنا پلانٹ شٹ ڈاؤن کر رہی ہے جب کہ ہونڈا اٹلس نے عید کے دوران دو سے تین دنوں تک اپنا پلانٹ بند رکھا۔ اس کے علاوہ انڈس موٹرز نے یکم سے 13 اگست تک شٹ ڈاؤن کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اگر تمام آٹو کمپنیاں اپنے نان پروڈکشن ڈیز یا شٹ ڈاؤن کا اعلان کررہی ہیں تو سب کو ایک ساتھ مل کرنا چاہیے۔‘

’مقامی پارٹس بنانے والی کمپنیوں کو اس وجہ سے کئی مشکلات پیش آرہی ہیں۔ پارٹس بنانے والی کمپنیوں کے آپریشن صرف ایک کمپنی کے لیے نہیں بلکہ تمام کمپنیوں کے لیے بحال ہوتے ہیں۔ مگر اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ اگر سوزوکی کے لیے پلانٹ کھلتا ہے تو ٹیوٹا شٹ ڈاؤن ہوجاتی ہے۔ ٹیوٹا کے لیے کھلتا ہے تو کیا موٹرز بند ہوجاتا ہے۔ انتہائی بے ہنگم صورت حال ہے۔ اس وجہ سے مقامی پلانٹ بنانے والی کمپنیوں کا وقت، پیسہ اور وسائل ضائع ہورہے ہیں اور وہ بھی موجودہ بحران کی لپیٹ میں آرہی ہیں۔‘

 

گاڑیاں کیوں دیر سے مل رہی ہیں اور ایل سی کیا ہے؟

محمد مشہود علی خان نے مزید بتایا کہ ’حکومت نے پہلے صرف لگژری اشیا کی درآمدات پر پابندی عائد کی تھی مگر اب حکومت نے گاڑیوں کے پارٹس کی درآمدات کے لیے بننے والے لیٹر آف کریڈٹ پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔ اس کے باعث آٹو کمپنیاں اب تک اپنے پچھلے آرڈرز بھی کلئیر نہیں کرسکی ہیں اور نئے آرڈرز کی بکنگ انہوں نے بند کر دی ہے۔ یہاں تک کہ کمپنیوں نے اب لوگوں کو گاڑی نہ ملنے پر پیسے واپس کرنے کا عمل بھی شروع کر دیا ہے۔‘

’لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) کا مطلب ہے کہ گاڑی کی کمپنیاں بیرون ملک سے گاڑیاں بنانے کے لیے جو CKD اور CBU پارٹس منگواتیں ہیں اس کے لیے انہیں کمرشل بینکوں کے ذریعے سٹیٹ بینک آف پاکستان میں ایک گزارش دینا ہوتی ہے۔ اسے آٹو کمپنیوں کی زبان میں ایل سی کھولنا کہتے ہیں۔ ایل سی کے عمل میں بیرون ملک پارٹس کی کمپنی پاکستانی آٹو کمپنی کو یہ گارنٹی دیتی ہے کہ دونوں کے درمیان بینک کے ذریعے پیسوں کا ٹرانسفر ممکن ہوگا۔ یہ لیٹر آف کریڈٹ کہلاتا ہے۔ گارنٹی ملنے کے بعد کسی بھی مقامی بینک میں آٹو کمپنیاں اپنی گزارش جمع کرواتی ہیں جس کی سٹیٹ بینک منظوری دیتا ہے۔ مگر اب سٹیٹ بینک اس کی منظوری نہیں دے رہا۔‘

’چونکہ پاکستان اور بیرون ملک کمپنیوں کے درمیان رقم کی ادائیگی اکثر ڈالرز میں ہی ہوتی ہے تو حکومت پاکستان نے ملک میں ڈالر کے ریزرو کم ہونے کے باعث بیرون ملک سے منگوائی جانے والی انڈسٹریل مشینریوں اور دیگر اشیا کی درآمدات پر پابندی لگادی ہے۔ یہ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ کڑی جانچ کرنے پر ہی ایل سی کھولی جائے اور ملک میں ڈالرز کے ریزرو کم نہ ہوں۔‘

’پچھلے دو سالوں کے مقابلے میں گذشتہ مہینے جون میں اب تک کی سب سے زیادہ درآمدات کی گئی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 1.7 ارب کی درآمدات کی گئیں جس کے باعث حکومت نے درآمدات پر پابندی عائد کردی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ‘پاکستانی حکومت کی جانب سے 2021 سے لے کر 2026 تک کی نئی پالیسی کے تحت کئی نئی آٹو کمپنیاں پاکستان آئی ہیں جس میں ہنڈائی، کیا، چینگن اور دیگر چینی کمپنیاں شامل ہیں۔ ان کمپنیوں کی مقامی مینوفیکچرنگ تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومت کی نئی پالیسی کے تحت صرف ان ہی کمپنیوں کو تین سالوں تک گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت ہے اور ان کے لیے پالیسی میں نرمی ہے۔‘

’اصل مسئلہ ان آٹو کمپنیوں کو پیش آرہا ہے جو پچھلی دو تین دہائیوں سے ملک میں گاڑیاں بنا رہی ہیں۔ ان کی گاڑیاں 35 سے 65 فیصد تک پاکستان میں بن رہی ہیں جب کہ پروڈکشن کا باقی حصہ درآمدی پارٹس پر منحصر ہوتا ہے۔ ان کے لیے سٹیٹ بینک یا حکومت کی طرف سے ابھی کوئی پالیسی میں نرمی نہیں آئی ہے۔ ان کمپنیوں میں ٹیوٹا، سزوکی اور ہونڈا شامل ہیں۔‘

اس حوالے سے کیا موٹرز کے نمائندے کا کہنا تھا کہ ’KIA پاکستان میں گذشتہ تین سالوں سے کام کر رہی ہے اور اسے بھی پارٹس درآمد کرنے میں کافی دشواری پیش آرہی ہے۔ ایل سی کے مسئلے کے باعث رواں سال 19 مئی سے KIA نے ان گاڑیوں کی بکنگ روک دی ہے جن کے پارٹس باہر سے منگوانے میں دشواری پیش آرہی ہے۔ ان گاڑیوں میں پکانٹو اور سپورٹیج شامل ہیں۔ اگر کوئی اپنا آرڈر منسوخ کرتا ہے تو ہم اسے پورے پیسے واپس دے رہے ہیں کیوں کہ یہ گاہک کا حق ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’کچھ گاڑیوں کے پارٹس اس وقت پاکستان میں تیار کرنا ممکن نہیں ہے اسی وجہ سے انہیں درآمد کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود بھی KIA کو پاکستان کی دیگر آٹو کمپنیوں کے مقابلے میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ستمبر 2019 میں لانچنگ کے بعد سے کیا نے سپورٹیج اور پکانٹو کو تقریباً 35 فیصد تک مقامی طور پر تیار کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ تین سالوں میں بہت بڑا معرکہ ہے جو کے پاکستان میں کئی دہائیوں سے موجود آٹو کمپنیوں نے ابھی تک حاصل نہیں کیا۔‘

گاڑیوں کا بحران بہتر ہوگا یا مزید سنگین ہوجائے گا؟

پچھلی دو دہائیوں سے پاکستانی آٹو انڈسٹری پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی عامر شفاعت نے کہا کہ ’میں نے پاکستان کی آٹو انڈسٹری میں آج تک اتنا خطرناک بحران نہیں دیکھا۔ اس دفعہ نہ صرف روپیہ ریکارڈ حد تک گر گیا ہے بلکہ بیرون ملک سے گاڑیوں کے پارٹس درآمد کرنے کی قیمت میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوگیا ہے۔ اس میں آٹو کمپنیوں کی بھی ناکامی ہے جیسے کہ سوزوکی جو پچھلے 30 سالوں سے پاکستان میں گاڑیاں بنا رہی ہے لیکن اس نے پاکستان میں اپنی گاڑیوں میں کوئی ٹیکنالوجیکل ایڈوانسمنٹ نہیں کی ہے بلکہ یہ کمپنی آج بھی مکمل طور پر اپنی گاڑیاں ملک میں نہیں بنارہی۔‘

’سٹیٹ بینک نے گاڑیوں کی کمپنیوں کو ایک مخصوص کوٹہ دیا ہے تاکہ ان کا کام چلتا رہے لیکن اس سے کمپنیوں کو پارٹس درآمد کرنے میں بے حد مسئلہ پیش آرہا ہے۔ کیا موٹرز اور ہنڈائی موٹرز نے اپنی گاڑیوں کی قیمتیں بڑھا دی ہیں اور اس سے قبل سوزوکی نے بھی قیمت میں کافی اضافہ کیا ہے۔ ایک معمولی فیچرز والی سوزوکی آلٹو اور کیا کی پکانٹو گاڑی 20 لاکھ سے اوپر کی مل رہی ہے۔ عام آدمی اسے کیسے برداشت کرسکتا ہے؟ لوگوں نے کئی ماہ سے گاڑیاں بک کروائی ہوئی ہیں لیکن آج تک ان کی ڈیلیوری کا کوئی اتا پتا نہیں ہے۔‘

معاشی تجزیہ کار سمیع اللہ خان نے کہا کہ ’ابھی جو حالات چل رہے ہیں اس میں لگ رہا ہے کہ گاڑیوں کی قیمتیں مزید بڑھیں گی اور آٹو کمپنیوں میں پروڈکشن رک جانے کے باعث گاڑیوں کی تعداد میں میں واضح کمی آئی گی جس سے وہ مارکیٹ میں بہت جلد شارٹ ہوجائیں گی۔ اس لیے جن لوگوں کے پاس پیسے ہیں اور وہ گاڑی لینا چاہتے ہیں تو انہیں گاڑی بک کروالینی چاہیے۔‘

’آئی ایم ایف نے حال ہی میں عالمی جی ڈی پی کی پیشن گوئی 2022 میں 3.2 فیصد اور 2023 میں 2.9 فیصد کی ہے اور دنیا کے معاشی منظرنامے کو غیر یقینی اور پریشان کن قرار دیا ہے۔ وہیں پاکستانی معیشت کی صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے۔ صرف پاکستان نہیں بلکہ کووڈ کے بعد پوری دنیا ہی اس وقت معاشی مسائل میں مبتلا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’سٹیٹ بینک آف پاکستان نے سات جولائی 2022 کو مانیٹری پالیسی کا اعلان کیا تھا جس کے تحت پاکستان کی جی ڈی پی نمو کا تخمینہ بھی پانچ فیصد کم کرکے تین سے چار فیصد تک کر دیا گیا ہے جس کا موجودہ مالی سال کے بجٹ میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔ تاہم حالات اس وقت اپنی بدترین صورت میں ہیں اور اس میں  مزید خرابی کی گنجائش نہیں ہے۔‘

’گاڑیوں کا معاملہ اب اس کے بعد بہتری کی طرف ہی جائے گا۔ آٹو کمپنیوں کے شٹ ڈاؤن اور سٹیٹ بینک کی پابندیوں کے اثرات نظر آںے میں تھوڑا وقت لگے گا لیکن یہ اثرات مثبت ہوں گے۔ ڈالر کا جتنا شارٹ فال ہونا تھا ہوچکا تھا۔ اگلے مہینے سے پیسے کا نقصان کم اور پیسے کی سرکیولیشن زیادہ ہوگی۔ امید ہے کہ صورت حال آگے بہتری کی طرف ہی جائے۔‘

’البتہ گاڑی کی قیمتیں نیچے نہیں آئیں گی مگر اس وقت جو مسائل ہیں ان میں کافی کمی واقع ہوگی۔ آٹو سیکٹر کے لیے اس وقت جتنے مشکل حالات ہیں آگے وہ مسائل نہیں ہوں گے۔ اس لیے کیوں کہ دنیا میں چیزوں کی قیمتیں وقت کے ساتھ ساتھ نیچے آرہی ہیں یعنی گاڑیوں کے درآمدی پارٹس کی قیمتیں بھی کم ہوں گی۔‘

حل کیا ہے؟

پیپم کے سابق چئیرمین محمد مشہود علی خان نے کہا کہ ’حکومت معاشی مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آرہی۔ ملک میں سیاسی گیم شو چل رہا ہے اور حکومت کی دلچسپی اسی میں ہے۔ حکومت کو چاہیے کے پاکستان میں ٹاپ اکانومسٹ اور انڈسٹریلسٹ کی ایک ٹیم بنائے پھر لائحہ عمل طے کیا جائے کہ پاکستان کے معاشی مسائل کو مختصر اور طویل مدت میں کیسے حل کیا جائے۔‘

’کاروباری کمیونٹی کے اپنے بھی کئی تعلقات ہوتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان سب کو آن بورڈ لیا جائے اس سے کافی مسائل حل ہوں گے۔ حکومت، عوام اور کاروباری کمیونٹی کے درمیان عدم اعتمادی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ عجیب بے چینی کی سی صورت حال ہے۔ معاشی صورت حال اس سے سنگین نہیں ہوسکتی اس کے بعد صرف پہیہ جام ہی ہوسکتا ہے، حکومت کو چاہیے کہ معاشی صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے بلا تاخیر اقدامات کرے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی