جب کیکو اوگورا صرف آٹھ سال کی تھیں تو انہوں نے اپنی آنکھوں سے ان لوگوں کو دیکھا جن کی کھال ادھڑ رہی تھی، چہرے اتنے سوجے ہوئے تھے کہ پہچانے نہیں جا رہے تھے، اور وہ ایک جلتے ہوئے شہر میں لڑکھڑاتے ہوئے چل رہے تھے۔
ہیروشیما پر ایٹم بم حملے میں زندہ بچ جانے والی کیکو اوگورا کے لیے چھ اگست 1945 کی صبح وہ دن تھا جب ان کا بچپن ختم ہو گیا۔
انہیں یاد ہے کہ جس لمحے بم گرا: ہیروشیما ایک پل میں یوں ہموار ہو گیا جیسے کسی دیو نے شہر کو روند کر برابر دیا ہو۔ ’عمارتیں چکنا چور ہو گئیں، اور ہر جگہ آگ لگ گئی۔ اس رات ہیروشیما جلتا رہا۔ پورا شہر رات بھر جلتا رہا۔‘
اوگورا کا خاندان ایک سال پہلے شہر کے مرکز سے تھوڑا باہر ایک چھوٹی پہاڑی کے دوسری طرف منتقل ہو گیا تھا۔ یہ فیصلہ ان کے والد نے فضائی حملوں سے بچنے کے لیے کیا تھا۔ اور اسی فیصلے آخر کار ان کی جانیں بچا لیں۔ وہ پہاڑی ان کے گھر اور بم پھٹنے کے مرکز کے درمیان حائل تھی، جس نے انہیں دھماکے کی پوری شدت سے بچا لیا۔
بم دھماکے کے بعد کے دنوں میں اوگورا کو ہر طرف خوفناک مناظر نے گھیر لیا۔ بچ جانے والے آگ سے بچنے کے لیے ہیروشیما کے سات دریاؤں میں کود پڑے تھے، لیکن بہت سے ڈوب گئے یا اپنے زخموں کی وجہ سے مر گئے۔ انہیں یاد ہے کہ دریا لاشوں سے بھرے پڑے تھے۔ کچھ لاشیں بہہ رہی تھیں، کچھ لہروں کے ساتھ واپس آ رہی تھیں، ان کے اعضا غائب تھے اور ان پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔
بڑے پیمانے پر لاشوں کو جلانا روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن گیا۔ ان کے گھر کے سامنے ہی ان کے والد نے تقریباً 700 لوگوں کو جلایا۔ ہیروشیما پیس میموریل میوزیم کی طرف سے شائع کردہ ایک ویڈیو میں انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا، ’بچوں کو بھی میری طرح بوریوں پر رکھ کر لاشیں اٹھانے میں مدد کرنی پڑتی تھی۔‘
قریب آٹھ دہائیاں بعد بھی، وہ یادیں تازہ ہیں۔ ناقابلِ برداشت درد اور ناقابلِ حساب نقصان کے مناظر ان کے ذہن میں نقش ہیں۔
اوگورا کے لیے یہ محض ذاتی یادیں نہیں ہیں۔ یہ انتباہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ دنیا کو ان انتباہوں کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔
ہر سال چھ اگست کو ہیروشیما ڈے منایا جاتا ہے، جو انسانی تاریخ کے سب سے تباہ کن لمحات میں سے ایک کی یاد دلاتا ہے۔ اسی دن دوسری عالمی جنگ کے آخری ایام میں 1945 میں امریکہ نے ہیروشیما پر ایٹم بم پھینکا تھا۔
اس صبح ’اینولا گے‘ نامی ایک امریکی B-29 بمبار طیارے نے یورینیم پر مبنی ایٹم بم گرایا، جس کا نام ’لٹل بوائے‘ رکھا گیا تھا۔ یہ بم شہر سے تقریباً 600 میٹر اوپر فضا مں پھٹا۔
اس بم کی وجہ سے ایک زبردست دھماکہ ہوا، جھلسانے والی تپش، اور مہلک تابکاری خارج ہوئی، جس سے فوری طور پر 70 ہزار سے 80 ہزار لوگ موت کے منھ میں چلے گئے۔
اس کے بعد کے دنوں اور مہینوں میں ہزاروں مزید لوگ زخموں اور تابکاری کی بیماری سے مر گئے۔ شہر ہموار ہو گیا تھا، اور زندہ بچ جانے والے، جنہیں جاپانی میں ’ہیباکوشا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، صحت کے طویل مدتی مسائل اور ناقابلِ تصور نفسیاتی صدمے سے گزرے۔
تین دن بعد نو اگست کو، امریکہ نے ناگاساکی پر دوسرا بم گرایا جسے ’فیٹ مین‘ کا نام دیا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ دنیا میں ایٹم بم کا جنگ کے دوران پہلا اور واحد استعمال ہے۔ اس کے نتیجے میں 15 اگست 1945 کو جاپان نے ہتھیار ڈال دیے، جس سے دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔
ایٹم بم حملوں میں 210,000 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی صرف اس عظیم انسانی المیے کی نہیں بلکہ آج کی اس بکھری ہوئی دنیا میں جوہری ہتھیاروں سے انسانیت کو لاحق گہرے خطرے کی بھی ایک دیرپا یاد دہانی ہیں۔ 1945 کے بعد کے سالوں میں، زندہ بچ جانے والوں، کارکنوں اور عالمی رہنماؤں نے بار بار اس تباہی کا حوالہ دیا ہے، جسے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کی ایک سخت اپیل اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک انتباہی سبق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
گذشتہ سال بم دھماکوں میں زندہ بچ جانے والوں نے کہا تھا کہ نوبل امن انعام حاصل کرنے کے بعد ان کا جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے مہم چلانے کا عزم مزید پختہ ہو گیا ہے۔
اس وقت ناگاساکی پر ایٹم بم حملے میں زندہ بچ جانے والے تیرومی تاناکا نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ’مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے مجھے جو کام میں نے اب تک کیا ہے اس پر اور بھی زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے۔‘
93 سالہ تاناکا نے گذشتہ سال ٹوکیو میں ایک پریس کانفرنس میں بات کی تھی جب وہ اوسلو سے واپس آئے تھے، جہاں انہوں نے جاپانی ایٹم بم حملوں میں بچ جانے والوں کی تنظیم ’نہون ہیدانکيو‘ کی جانب سے نوبل امن انعام قبول کیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا، ’میرا خیال ہے کہ اگلے 10 سالوں پر توجہ مرکوز کرنا اور آگے بڑھنے والی تحریک کو مضبوط بنانا ضروری ہے۔ میں گواہیوں کی ایک بڑی تحریک کی قیادت کرنا چاہتا ہوں۔‘
پیر کو تاناکا نے پریس کو بتایا: ’میرا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں ایک جوہری جنگ چھڑ سکتی ہے۔ آج کے زیادہ تر نوجوانوں کو شاید یہ نہیں معلوم کہ کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ 12 ہزار ایٹم بم ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’ایک ایٹم بم 80 سال پہلے کے بموں سے دو ہزار گنا زیادہ طاقتور ہے۔‘
اس سال ایٹم بم حملوں کی 80 ویں سالگرہ ہے، جو زندہ بچ جانے والوں اور مہم چلانے والوں کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔
گذشتہ سال ہیروشیما بم دھماکے میں زندہ بچ جانے والی میچیکو کوداما نے کہا تھا: ’ہم ہیباکوشا (یعنی زندہ بچ جانے والے) جنہوں نے جہنم دیکھا۔۔۔ ایک دہائی کے بعد ایٹم بم حملے کی حقیقت بتانے کے لیے موجود نہیں ہوں گے۔ میں جب تک زندہ ہوں اپنی کہانیاں سنانا چاہتی ہوں۔‘
کوداما اگست 1945 میں سات سال کی تھیں۔
ایک اور زندہ بچ جانے والی، 80 سالہ فومی تیکیشیتا یاد کرتی ہیں، ’میں نے کھڑکی سے ایک انتہائی مضبوط روشنی آتے ہوئے دیکھی۔ یہ سفید تھی، یا یوں کہوں کہ پیلی؟ اتنی تیز تھی کہ میں اپنی آنکھیں کھلی نہیں رکھ سکی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ بم گرنے کے اگلے دن کی بات ہے۔ (میرے والد) ہائپوسینٹر، اراکامی کے علاقے سے گزرے اور بہت سے لوگوں کو مدد کے لیے پکارتے ہوئے سنا۔ وہاں لاشوں کے ڈھیر بھی تھے۔ عمارتیں زمین پر گر گئی تھیں اور بظاہر کچھ بھی باقی نہیں تھا۔ میں نے یہ اپنی دادی سے سنا۔ انہوں نے کہا، ’فومی چن، تمہیں وہ روشنی یاد ہے جو تم نے اس دن دیکھی تھی؟ اس کی وجہ سے، اراکامی میں کچھ بھی باقی نہیں رہا، اور بہت سے لوگ مر گئے۔‘
تیکیشیتا ایٹم بم دھماکے کے بعد کی تباہی کو دردناک طور پر یاد کرتی ہیں، دیگر زندہ بچ جانے والوں نے بھی کئی دہائیوں تک اپنی یادوں کا بوجھ اٹھایا ہے۔
صحت کے متعدد مسائل سے لڑنے کے باوجود 83 سالہ زندہ بچ جانے والے کونیہیکو ایدا نے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے مقصد کو آگے بڑھانے کی امید میں اپنی ریٹائرمنٹ اپنی کہانی سنانے کے لیے وقف کر دی ہے۔
ایدا اب ہیروشیما کے پیس میموریل پارک میں ایک گائیڈ کے طور پر رضاکارانہ خدمات انجام دیتے ہیں، اور وہ غیر ملکی سیاحوں میں بیداری پیدا کرنے کے لیے پرعزم ہیں، جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ اکثر بم دھماکوں کی مکمل سمجھ نہیں رکھتے۔
ایدا نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اگست 1945 کے اس دن ’امی، مدد!‘ چلانے کی کوشش کی تھی، لیکن کوئی آواز نہیں نکلی۔ انہیں بالآخر ان کے دادا نے بچایا۔
ایک مہینے کے اندر ان کی 25 سالہ والدہ اور چار سالہ بہن تابکاری کے اثرات کی علامات یعنی ناک سے خون بہنے، جلد کے مسائل، اور شدید تھکاوٹ کے بعد چلے بسے۔ ایدا کو ایلیمنٹری سکول کے دوران بھی اسی طرح کے اثرات کا سامنا رہا لیکن وہ آہستہ آہستہ صحت یاب ہو گئے۔
وہ تقریباً 60 سال کی عمر تک بم دھماکے کی جگہ پر پیس پارک میں واپس نہیں گئے۔ ان کی عمر رسیدہ خالہ نے ان سے ان کے ساتھ جانے کو کہا، اور وہ بالآخر راضی ہو گئے۔ یہ اس دن کے بعد ان کا پہلا دورہ تھا۔
ایڈا کہتے ہیں، ’امن کا واحد راستہ جوہری ہتھیاروں کا خاتمہ ہے۔ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔‘
جیسے جیسے ہر گزرتے سال کے ساتھ ہیباکوشا کی عمر بڑھ رہی ہے، ان کی انتباہات بھی زیادہ ضروری محسوس ہوتی ہیں۔ جاپان کی وزارت صحت، محنت اور بہبود کی جانب سے 31 مارچ 2025 تک کی رپورٹ کے مطابق، صرف 99,130 لوگوں کو سرکاری طور پر ہیباکوشا کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔
جوہری ہتھیاروں سے پاک دنیا کے لیے ان کی پکار ابھی تک پوری نہیں ہو سکی ہے۔
اس کے برعکس بڑھتی ہوئی عالمی کشیدگی نے جوہری جنگ کے خدشات مزید گہرے کر دیے ہیں۔ حال ہی میں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے ماسکو کی طرف سے دھمکی آمیز ریمارکس کے جواب میں روس کے قریب جوہری آبدوزیں تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔
سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2024 میں تقریباً تمام نو جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاستوں یعنی ریاست ہائے متحدہ امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین، بھارت، پاکستان، شمالی کوریا، اور اسرائیل نے وسیع جوہری جدید کاری کے پروگراموں کو جاری رکھا، موجودہ ہتھیاروں کو اپ گریڈ کیا اور نئے، زیادہ جدید ہتھیار تیار کیے۔
رپورٹ میں کہا گیا، ’جنوری 2025 تک، دنیا بھر میں اندازاً 12,241 جوہری وار ہیڈز موجود تھے، جن میں سے تقریباً 9,614 فوجی ذخائر میں موجود تھے اور ممکنہ استعمال کے لیے دستیاب تھے۔‘
مارچ 2023 میں روس نے بیلاروس میں ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار تعینات کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا۔ یہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد پہلا موقع ہے جب اس نے اپنے سرحدی حدود سے باہر ایسے ہتھیاروں منتقل کیے ہوں۔
اگرچہ ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی کی براہ راست خلاف ورزی نہیں تھی، لیکن ناقدین کا مؤقف تھا کہ نیٹو کے جوہری اشتراک کے انتظامات کی طرح یہ قدم معاہدے کی روح کو کمزور کرتا ہے۔
پھر نومبر 2024 میں روسی صدر ولادی میر پوتن نے روس کے جوہری نظریے میں ترمیم کی منظوری دی۔ ایسی تبدیلیاں جو بہت سے تجزیہ کاروں کے مطابق، ممکنہ جوہری استعمال کے لیے حد کو کم کرتی دکھائی دیں۔
گذشتہ سال نومبر میں، شمالی کوریا کے اقوام متحدہ کے سفیر نے کہا تھا کہ امریکہ سے خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے، ملک نے ایک بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا تجربہ کرنے کے بعد اپنے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو تیز کرنے کا عہد کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں شمالی کوریا کے سفیر کم سونگ نے سلامتی کونسل کے ایک اجلاس کے دوران کہا کہ پیانگ یانگ ’دشمن جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاستوں کی طرف سے پیش کیے جانے والے کسی بھی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے‘ پروگرام کو تیز کرے گا۔
سپری کے مطابق گذشتہ ماہ یہ اطلاع دی گئی تھی کہ چین اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذخائر کو کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں تیزی سے بڑھا رہا ہے، جس میں اب کم از کم 600 وار ہیڈز ہیں اور 2023 کے بعد سے سالانہ تقریباً 100 کا اضافہ ہو رہا ہے۔
سپری کی رپورٹ میں یہ بھی ذکر کیا گیا کہ اسرائیل اگرچہ وہ باضابطہ طور پر جوہری ہتھیار رکھنے کا اعتراف نہیں کرتا، لیکن یہ مانا جاتا ہے کہ وہ اپنے ہتھیاروں کو جدید بنا رہا ہے۔ 2024 میں رپورٹ میں کہا گیا کہ اس نے ایک میزائل پروپلشن سسٹم کا تجربہ کیا جو ممکنہ طور پر اس کے جوہری صلاحیت والے جیریکو بیلسٹک میزائلوں سے منسلک ہے، اور سیٹلائٹ تصاویر نے اس کی دیمونا پلوٹونیم پیداوار کی تنصیب میں جاری اپ گریڈ کی نشاندہی کی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’روس اور امریکہ کے پاس مشترکہ طور پر تمام جوہری ہتھیاروں کا تقریباً 90 فیصد موجود ہے۔ 2024 میں ان کے متعلقہ فوجی ذخائر (یعنی قابل استعمال وار ہیڈز) کا سائز نسبتاً مستحکم رہا، لیکن دونوں ریاستیں وسیع جدید کاری کے پروگراموں کو نافذ کر رہی ہیں جو مستقبل میں ان کے ہتھیاروں کے سائز اور تنوع کو بڑھا سکتے ہیں۔‘
سپری کے بڑے تباہی کے ہتھیاروں کے پروگرام کے ایسوسی ایٹ سینئر فیلو اور فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس (FAS) میں نیوکلیئر انفارمیشن پروجیکٹ کے ڈائریکٹر ہانس ایم کرسٹینسن نے کہا، ’دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں کمی کا دور، جو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے جاری تھا، اب ختم ہو رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا، ’اس کے بجائے ہم جوہری ہتھیاروں کے بڑھتے ہوئے ذخائر، تیز جوہری بیان بازی، اور ہتھیاروں کے کنٹرول کے معاہدوں کو ترک کرنے کا ایک واضح رجحان دیکھ رہے ہیں۔‘
نہون ہیدانکيو کے تاناکا نے پیر کو میڈیا کو بتایا: ’تین ہزار سے چار ہزار استعمال کے لیے تیار ایٹم بم ایسے ہیں جو رہنما فوری طور پر لانچ کر سکتے ہیں۔ ایسا حادثاتی طور پر بھی ہو سکتا ہے۔ یہ وہ دنیا ہے جس میں ہم سب رہتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے، تو نوجوان لوگ اپنا مستقبل کھو دیں گے۔ میں نوجوانوں کو اس کے بارے میں سوچنے کے لیے کہنا چاہتا ہوں۔‘
لہٰذا چھ اگست کو جب دنیا جوہری ہتھیاروں کے خاتمے اور جوہری ہتھیاروں سے پاک مستقبل کے بارے میں تقاریب اور گفتگو کرتی ہے، تو یہ سوال اب بھی ذہن میں آتا ہے: کیا بااثر طاقتوں نے جان بوجھ کر آج کی دنیا میں جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کو ایک دور کا خواب بنا دیا ہے؟ کیا جوہری ہتھیاروں سے پاک دنیا کا خواب مزید دور ہو چکا ہے؟
اور اس عمل میں، کیا ہم کیکو اوگورا جیسے ہیباکوشا کے مصائب کو بھولنا شروع کر رہے ہیں؟
پیر کو نارویجن نوبل کمیٹی کے چیئرمین جورجن فرائیڈنس نے کہا: ’مجھے نہیں لگتا کہ (جوہری ہتھیاروں کا) خوف ہمارے مسائل کا حل ہے۔ ہیباکوشا واضح طور پر یہ دکھاتے ہیں کہ درد، غم، اور دکھ کی صورت حال میں بھی، امن کا انتخاب ممکن ہے، اور یہ وہ پیغام ہے جسے ہم دنیا کو سنانا چاہتے ہیں۔‘
فرائیڈنس نے ایٹم بم حملوں کی 80 ویں سالگرہ سے قبل گزشتہ ہفتے ہیروشیما اور ناگاساکی کا دورہ کیا۔
انہوں نے کہا، ’ان کی کہانی یادوں کی ایک ایسی کہانی بھی ہے جو تبدیلی کی قوت بن جاتی ہے۔‘
© The Independent