کیا آپ کو معلوم ہے کہ اسرائیلی فوجی غزہ میں قتل و غارت کے بعد آرام کے لیے کہاں جاتے ہیں؟
انڈیا ۔ جی ہمارے ہمسایہ ملک جانا ان کی ایک روایت بن چکی ہے۔ اس سفر کو عبرانی زبان میں ’عظیم سفر‘ یا ’ہتیول ہاگادول‘ کہا جاتا ہے۔
ہزاروں ڈیموبلائزڈ فوجی، جو اپنی دو سے تین سال کی لازمی فوجی سروس مکمل کرنے کے بعد انڈیا، جنوب مشرقی ایشیا اور جنوبی امریکہ کی طرف تناؤ سے آزاد ماحول میں آرام کے لیے جاتے ہیں۔
اسرائیلیوں کے اس سفر کو ’ہمس ٹریل‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ہماچل پردیش کے کاسول اور دھرم کوٹ جیسے کچھ علاقوں کو اسرائیلی سیاحوں کی کثرت اور عبرانی کھانوں کی دستیابی کی وجہ سے ’منی اسرائیل‘ بھی کہا جاتا ہے۔
ہیروز فار لائف، ایک اسرائیلی غیر منافع بخش تنظیم ہے جسے ایک ایلیٹ اسرائیلی ڈیفینس فورس کے سپاہی گیلی کوہن نے قائم کیا، جو نوجوان اسرائیلی رضاکاروں کو ان کی لازمی فوجی سروس کے بعد دنیا بھر بھیجتا ہے۔
اس کے مطابق ہر سال تقریباً چار لاکھ اسرائیلی فوجی اپنی سروس مکمل کرنے کے بعد اس سفر پر نکلتے ہیں۔ ان میں سے کچھ اپنے سفر کے دو ہفتے انڈیا، نیپال، تھائی لینڈ، پیرو اور یوگنڈا جیسے ممالک میں مقامی کمیونٹیز کے ساتھ رضاکارانہ خدمات کے لیے بھی وقف کرتے ہیں۔
سارہ رادھا پیلھم نے انڈیا میں ایسے ہی ایک علاقے کے سفر کے بعد تحریر میں لکھا کہ ہر سال 80 ہزار اسرائیلی سیاح انڈیا آتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رقبے کے اعتبار سے بڑا ملک اور ہر قسم کی آزادی کے علاوہ اس کا سستا ہونا بھی اسے اسرائیلی فوجیوں میں مقبول بناتا ہے۔ اخبار ’جیوش پوسٹ‘ کی 2013 کی رپورٹ کے مطابق تقریباً دو ہزار فوجی ہر سال انڈیا آتے ہیں، جن میں سے 90 فیصد وہاں منشیات کا استعمال کرتے ہیں۔
یہ بات دلچسپ ہے کہ پیو ریسرچ کے ایک سروے کے مطابق انڈیا دنیا کے 20 بڑے ملکوں میں سے واحد ملک ہے جہاں عوامی تاثر اسرائیل کے حق میں ہے۔
غزہ میں نسل کشی کے باوجود انڈیا اسرائیل کے قریب آنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے بدھ کو بھی اسرائیلی ہم منصب سے ٹیلیفونک گفتگو میں سٹریٹیجک شراکت داری کو مضبوط کرنے پر زور دیا۔
سارہ رادھا پیلھم کا کہنا ہے کہ دنیا کے کئی ممالک اسرائیل سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ گلوبل ساؤتھ کے دیگر ممالک ہیں، لیکن انڈیا نے صیہونی حکومت کے ساتھ مؤثر طریقے سے تعلقات کو معمول پر لاتے ہوئے، اسرائیلی جنگی مجرموں کے لیے استثنیٰ کے ماحول کو تقویت دینے کے لیے قانونی خامیاں تلاش کی ہیں۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ان فوجیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد غزہ نسل کشی میں ملوث ہونے کی وجہ سے بیرون ملک سفر کے دوران گرفتاری کے خطرے کا سامنا بھی کرسکتی ہے۔
ہند رجب فاؤنڈیشن (ایچ آر ایف)، جس کا نام چھ سالہ ہند رجب کے نام پر رکھا گیا ہے، جو اپنے خاندان کے ساتھ گذشتہ جنوری میں غزہ شہر سے فرار کے دوران اسرائیل کے ہاتھوں ایک کار میں ماری گئی تھیں، بیرون ملک سفر کرنے والے ان افراد کے خلاف مقدمات چلانے کی کوششوں میں پیش پیش ہے۔
یہ تنظیم اسرائیلی فوجیوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی نگرانی کرتی ہے، ان کی آن لائن پوسٹس کو ٹریک کرتی ہے اور ان کے نام اور ان کی مجرمانہ سرگرمیوں کے شواہد بین الاقوامی اور ملکی عدالتی حکام کے پاس جمع کرواتی ہے۔
ایچ آر ایف اور دیگر قانونی کارکنوں نے دنیا بھر میں مقدمات چلائے ہیں (جن میں مقبول اسرائیلی سیاحتی مقامات جیسے برازیل، تھائی لینڈ اور سری لنکا شامل ہیں) لیکن اب تک یہ کوششیں انڈیا کو بظاہر نظر انداز کرتی نظر آتی ہیں۔
درحقیقت، اسرائیلی جنگی مجرموں کے خلاف بین الاقوامی کوششوں میں شامل ہونا انڈیا کے اپنے معاشی اور نظریاتی قومی مفادات کے خلاف ہوگا۔ 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد، مودی اور بی جے پی نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بڑھایا ہے تاکہ اپنے ہندوتوا پر مبنی عوامی ایجنڈے کو مضبوط کیا جا سکے۔
دھرم شالا کے ایک دکان دار نشان، جنہوں نے اپنے فلافل سٹور کی دیواروں پر اسرائیل کے سٹیکرز لگا رکھے ہیں، کہتے ہیں: ’اگر یہی وہ چیز ہے جو مجھے دن کے آخر میں اپنے خاندان کو کھانا کھلانے کی اجازت دیتی ہے، تو مجھے یہی کرنا ہوگا۔ میں اسرائیلیوں سے خوش نہیں ہوں، لیکن میں ان کے پیسے حاصل کر رہا ہوں۔۔ اگر وہ آنا بند کر دیں تو ہمیں سخت نقصان ہوگا۔‘
نشان نے مزید وضاحت کی: ’اور یہ صرف فلسطین تک محدود نہیں، گووا میں بھی دکان دار افسردہ ہیں کیونکہ روسی سیاح یوکرین کے ساتھ جنگ کے بعد آنا بند ہو گئے ہیں۔‘
