انڈیا کے قومی گیت ’بندے ماترم‘ کی تخلیق کو سات نومبر 2025 کو 150 سال مکمل ہو چکے ہیں جس پر مودی حکومت نے ڈیڑھ سو سالہ تقریبات کا آغاز کر دیا ہے۔
پیر کے روز وزیراعظم نریندر مودی نے لوک سبھا کے خصوصی اجلاس سے خطاب کیا جس میں انہوں نے کہا: ’جناح نے اس قومی گیت کی مخالفت کی اور کانگریس نے ان کی خوشامد میں گیت کے اہم حصوں کو نکال کر تقسیم کے بیج بوئے۔ بندے ماترم آزادی کی جدوجہد کی آواز تھا اور آج بھی قومی تعمیر کا مہا منتر ہے۔‘
مودی کی تقریر پر اپوزیشن اراکین نے ہنگامہ کیا اور کہا کہ مودی جناح اور کانگریس کے کردار کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں اور ’بندے ماترم‘ کے حوالے سے بیانیہ سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ’بندے ماترم‘ کیا ہے اور کیوں یہ گیت ڈیڑھ سو سال بعد بھی انڈیا میں وجہِ تنازع ہے؟ مودی حکومت اس بحث کو دوبارہ زندہ کر کے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے؟
’بندے ماترم‘ کا پس منظر کیا ہے؟
1763 میں بنگالی ہندوؤں نے ’سنیاسی تحریک‘ شروع کی، جس کا مقصد بنگال میں مسلمان نوابوں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ ہندو راج قائم کرنا تھا۔ اس تحریک کا نعرہ تھا ’بندے ماترم‘ یعنی ’اے ماں تجھے سلام۔‘ یہ تحریک تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے مستحکم ہونے پر ختم ہو گئی مگر اس کے لگ بھگ سو سال بعد بنگال کے ایک ناول نگار، شاعر اور صحافی بنکم چندر چٹرجی نے ایک ناول میں اس نعرے کو نہ صرف دوبارہ زندہ کر دیا بلکہ ’بندے ماترم‘ کے نام سے ایک ترانہ بھی لکھ دیا۔
اس ناول میں مسلمانوں کی حکومت مٹانے، ان کی بستیوں کو لوٹنے، قتل کرنے، آگ لگانے اور اپنے ملک سے نکال باہر کرنے کی قسمیں کھانے والا کردار اس ناول کا ہیرو ’بھوانند‘ ہے۔ ’آنند مٹھ‘ نامی ناول سب سے پہلے سات نومبر 1875 میں رسالہ ’بنگلہ درشن‘ میں قسط وار شائع ہوا تھا جس میں ’بندے ماترم‘ نامی گیت بھی شامل تھا۔
1896 میں کانگریس کے اجلاس میں رابندر ناتھ ٹیگور نے اسی گیت کو گایا تھا۔ 1905 میں کلکتہ میں ایک سوسائٹی بن گئی، جو ہر اتوار کو جلوس نکالتی جس میں یہ ترانہ گایا جاتا تھا۔ بنگال میں ’سو دیشی تحریک‘ کے عروج کے دنوں میں ’بندے ماترم‘ قومی نعرہ بن گیا۔ 1906 میں کلکتہ میں ’بندے ماترم‘ کے نام سے ایک انگریزی روزنامہ بھی شائع ہونے لگا۔
مئی 1907 میں لاہور میں جب راولپنڈی میں سودیشی تحریک کے رہنماؤں کی گرفتاری پر جلوس نکلا تو مظاہرین یہی ترانہ گا رہے تھے۔ جب انگریزوں نے دیکھا کہ ’بندے ماترم‘ کی شکل میں ایک مزاحمتی تحریک جنم لینے لگی ہے تو انہوں نے بنگال کے سکولوں اور کالجوں میں یہ گیت گانے پر پابندی لگا دی اور خلاف ورزی کی صورت میں سزائیں تجویز کی گئیں، جن میں سرکاری نوکری سے بےدخلی بھی شامل تھی۔ نومبر 1905 میں رنگ پور کے ایک سکول کے بچوں کو اس پاداش میں فی کس پانچ روپے جرمانہ بھی کیا گیا۔
بعد میں کئی لوگوں کو جرمانے اور سزائیں ہوئیں، حتیٰ کہ ملک بدر بھی کیا گیا لیکن اس کے باوجود بنگال سے پنجاب تک یہ گیت آزادی کے متوالوں کی آواز بن گیا۔ 1907 میں مدن بھیکا جی کاما نے انڈیا سے باہر پہلی بار جرمنی کے شہر برلن میں جب ترنگا لہرایا تو وہاں بھی ’بندے ماترم‘ ہی پڑھا گیا۔ 17 اگست 1909 کو جب مدن لال ڈھنگرا کو لندن میں ایک انگریز افسر کو قتل کرنے کی پاداش میں پھانسی پر لٹکایا گیا تو ان کی زبان پر ’بندے ماترم‘ ہی تھا۔
مسلمانوں کو ’بندے ماترم‘ پر کیا اعتراض تھا؟
1915 میں مہاتما گاندھی نے مدراس میں ایک اجلاس سے خطاب کیا جو ’بندے ماترم‘ سے شروع ہوا، جس پر گاندھی نے نہ صرف خوشی کا اظہار کیا بلکہ احتراماً کھڑے بھی ہو گئے۔ گاندھی نے کہا: ’شاعر نے مادرِ ہند کی تعریف کے لیے وہ تمام صفات استعمال کی ہیں جو ہم کر سکتے تھے، اب یہ آپ کا اور میرا فرض ہے کہ ہم اس دعوے کو سچ ثابت کریں جو شاعر نے اپنی مادرِ وطن کی طرف سے پیش کیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پروفیسر سبیاساچی بھٹاچاریہ کے مطابق 1920 تک ’بندے ماترم‘ شاید انڈیا کا سب سے زیادہ معروف قومی گیت تھا اور اس کے متعدد انڈین زبانوں میں تراجم ہو چکے تھے۔
1930 کی دہائی میں کچھ لوگوں نے ’بندے ماترم‘ پر اعتراض کیا اور کہا کہ یہ بت پرستی پر مبنی ہے۔ کچھ کا کہنا تھا کہ یہ گیت ملک کے سیکیولر اصولوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ سب سے زیادہ اعتراض مسلم لیگ کو تھا۔ محمد علی جناح کا موقف تھا کہ ’بندے ماترم‘ میں ہندو دیویوں جیسے درگاہ اور لکشمی کا حوالہ دیا گیا ہے۔
بالآخر مسلم لیگ کے اعتراض پر نہرو نے 1938 میں ایک ورکنگ کمیٹی بنا دی جس میں مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، سردار پٹیل، سبھاش چندر بوس، راجندر پرساد، مولانا آزاد اور سروجنی نائیڈو شامل تھے۔ اس کمیٹی کے فیصلے کی روشنی میں گیت کے متنازع حصے حذف کر دیے گئے۔
محمد داور حسین کی کتاب ’بندے ماترم اور اس کا تاریخی پس منظر‘ جو 1939 میں حیدر آباد دکن سے چھپی تھی، اس میں اس کا اردو ترجمہ بھی دیا گیا:
میں تیرا بندہ ہوں، اے میری ماں
میرے پانی، اچھے پھلوں، بھینی خنک جنوبی ہواؤں
شاداب کھیتوں والی، میری ماں
حسین چاندنی سے روشن رات والی، شگفتہ پھولوں والی، گنجان درختوں والی
میٹھی ہنسی، میٹھی زبان والی، سکھ دینے والی، میری ماں
تیس کروڑ گلوں کی پر جوش آوازیں، ساٹھ کروڑ بازوؤں میں سنبھلنے والی تلواریں
کیا اتنی قوت کے ہوتے ہوئے بھی اے ماں تو کمزور ہے؟ تو ہی ہمارے بازوؤں کی قوت ہے
میں تیرے قدم چومتا ہوں، تو دشمن کے لشکر کی غارت گر ہے میری ماں
تو ہی میرا علم ہے، تو ہی میرا دھرم ہے۔ تو ہی میرا باطن ہے، تو ہی میرا مقصد ہے
تو ہی جسم کے اندر کی جان ہے، تو ہی بازوؤں کی قوت ہے
دلوں کے اندر تیری ہی حقیقت ہے، تیری ہی محبوب مورتی ہے ایک ایک مندر میں
تو ہی درگاہ دس مسلح ہاتھوں والی، تو ہی کملا ہے کنول کے پھولوں کی بہار، تو ہی پانی ہے علم سے بہرہ ور کرنے والی
میں تیرا غلام ہوں، غلام کا غلام ہوں، غلام کے غلام کا غلام ہوں
اچھے پانی اچھے پھلوں والی میری ماں، میں تیرا بندہ ہوں
لہلہاتے کھیتوں والی مقدس موہنی آراستہ پیراستہ
بڑی قدرت والی قائم و دائم ماں، میں تیرا بندہ ہوں
مسلمانوں کو ان حصوں پر اعتراض تھا جن میں ہندوؤں کی دیویوں کی شان بیان کی گئی تھی، چنانچہ نہرو نے یہ حصے نکلوا دیے۔
کیا اب بی جے پی اسے دوبارہ انڈیا کا قومی ترانہ بنانا چاہتی ہے؟
انڈیا میں قومیت پر مبنی بحثوں میں ’بندے ماترم‘ ہمیشہ متنازع رہا ہے۔ بی جے پی جیسی جماعتوں سے وابستہ شدت پسند حلقہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ حب الوطنی کا گیت ہے جبکہ اقلیتوں کے نزدیک یہ ایسا گیت ہے جس کی جڑیں مذہبی پوجا پاٹ میں پیوست ہیں۔ تقسیم کے بعد رابندر ناتھ ٹیگور کے لکھے ہوئے ’جن گن من‘ کو انڈیا کا قومی ترانہ قرار دیا گیا لیکن اس کے باوجود وہاں کی قوم پرست جماعتیں ’بندے ماترم‘ کو قومی گیت ہی نہیں بلکہ انڈیا سے وفاداری کی علامت کے طور پر سمجھتی ہیں۔ جو ’بندے ماترم‘ نہیں پڑھتا وہ غدار کا رتبہ پاتا ہے۔
مودی حکومت ’بندے ماترم‘ کے ڈیڑھ سو سالہ جشن کا اعلان کرتے ہوئے اسے ایک بار پھر پارلیمنٹ میں لے آئی ہے۔ مودی نے لوک سبھا سے تو وزیر داخلہ امت شاہ نے راجیہ سبھا سے خطاب کیا ہے۔ لوک سبھا میں اس پر دس گھنٹے بات ہوئی ہے۔ بی جے پی یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ اگر کانگریس جناح کے دباؤ میں آ کر 1937 میں اس ترانے سے دو بند نہ نکالتی تو تقسیم کے بیج پیدا ہی نہ ہوتے۔ یہ دو بند اس ترانے کی روح تھے جو مسلمانوں کے احتجاج پر حذف کر دیے گئے اس لیے آج کی نسل کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ ’مہا منتر‘ ہماری قومی تعمیر نو کے لیے کیوں ناگزیر ہے۔ یہ صرف ایک گیت نہیں بلکہ اس کے ساتھ مخفی طاقتیں نتھی ہیں۔
ایسے لگتا ہے کہ مودی درپردہ ’بندے ماترم‘ کو انڈیا کا قومی ترانہ قرار دلوانا چاہتے ہیں۔ جس کا اظہار بی جے پی کے ترجمان سی آر کیسوان کی طویل ’ایکس‘ پوسٹ سے بھی ہوتا ہے۔
وہ لکھتے ہیں: ’اگرچہ نیتا جی سبھاش چندر بوس اس گیت کے اصل مکمل ورژن کو جاری کرنے کے حق میں تھے، لیکن نہرو کا خیال تھا کہ بندے ماترم قومی گیت کے طور پر موزوں نہیں ہے اور یہ مسلمانوں کو مشتعل کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔‘
مزید برآں، نہرو کی جانب سے مئی 1938 میں لکھا گیا ایک کابینہ نوٹ بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ ’جن گن من‘ کو قومی ترانہ بنانے کے حق میں کیوں تھے اور ’بندے ماترم‘ کے حق میں کیوں نہیں تھے۔
اس لیے جب انڈیا آزاد ہوا تو اس کی دستور ساز کمیٹی اور انڈیا کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد نے 24 جنوری 1950 کو اسے قومی گیت کا درجہ دے دیا اور ساتھ کہا کہ اس کی بھی اتنی ہی اہمیت ہو گی جتنی قومی ترانے کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مودی اس بحث کو اگلے سال کس طرف لے کر جاتے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔