آزادی کے پہلے عشرے میں جب مدر انڈیا (1957) ریلیز ہوئی تو آر ایس ایس کے ایک سڑک چھاپ پرچارک نے تنظیم کے ہفتہ وار جریدے میں لکھا: ’بھارت ماتا کے خد و خال محبوب خان کیوں تراشے اور اس کی لوری نوشاد کی موسیقی سے کیوں جنم لے؟‘ ان کے نزدیک بھارت ماتا کا ایسا روپ ناقابلِ قبول تھا جسے مسلمان فنکار نکھاریں۔
تب راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) محض پردے کے پیچھے بیٹھ کر کڑوے کسیلے مضمون لکھ سکتی تھی۔ آج سیاست، تعلیمی اداروں، کرکٹ اور بالی وڈ، ہر جگہ ہندوتوا راگنی چل رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر شاہ رخ خان کی فلموں کے بائیکاٹ اور دی کشمیر فائلز جیسی بے ذائقہ کھچڑی کی پروموشن سے بہت پہلے بالی وڈ نے نہرو کی سوشلسٹ شناخت کے زیر سایہ ایک پہنچان بنائی۔
پچاس کی دہائی کی ہندی فلمیں تقسیمِ ہند کے بعد قومی شناخت تلاش کر رہی تھیں۔ کسان کی ثابت قدمی، ماں کی قربانی، ایک سیکولر، دیہی ہندوستان ہی وہ خواب تھا جس کا دامن تھامے سینیما آگے بڑھ رہا تھا۔ ہندو مسلم تقسیم کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔
پلے بیک سنگرز میں ہندو لتا کے ساتھ مسلم رفیع کی جوڑی مقبول ہو رہی تھی۔ ایس ڈی برمن اور اوپی نیر کے ساتھ ساحر لدھیانوی بہترین گیت لکھ رہے تھے۔ مدن موہن اور راجہ مہدی علی خان نے کیسا کیسا شاہکار تخلیق کیا۔
ایسا نہیں کہ ذاتی سطح پر ہندو مسلم شناخت کا سوال ہی پیدا نہ ہوا ہو۔ ثریا اور دیو آنند کی شادی نہ ہونے میں نوشاد کا اہم کردار تھا، جنہوں نے ہندو مسلم ایشو پر ثریا کی نانی کا ساتھ دیا۔ عین ممکن ہے بنگالی موسیقاروں کی اینٹی رفیع سوچ کے پیچھے کہیں نہ کہیں مذہبی وجوہات بھی کارفرما ہوں۔
لیکن ریاست کی سرپرستی اور سماجی دیدہ دلیری تب تک سکرپٹ میں شامل نہ تھی۔ کہیں کہیں ایسے دھبے تھے لیکن پوری تصویر سیاہ نہیں ہوئی تھی۔
پچاس کی دہائی کا بالی وڈ اردو شعری زبان میں بات کرتا تھا۔ ساحر لدھیانوی سوشلسٹ رنگ کی کاٹ دار نظمیں لکھتے، کیفی اعظمی انقلاب کے گیت گاتے اور دلیپ کمار سب سے محبوب ہیرو تھے۔ آر ایس ایس کے لیے یہ بالی وڈ ناقابل قبول تھا، بہت زیادہ مسلمان، بہت زیادہ کمیونسٹ، بہت زیادہ نہرویانہ رنگ میں رنگی فلمیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب 1951 میں راج کپور کی ’آوارہ‘ ریلیز ہوئی تو یہ غربت اور ناانصافی کی ایک کہانی تھی جس نے ماسکو اور بیجنگ تک لاکھوں لوگوں کے دل جیت لیے۔ ماسکو نے اسے ہندوستان کا سوشلسٹ تحفہ قرار دیا گیا۔ مگر ناگپور میں آر ایس ایس کے کارکنان اسے ’غیر اخلاقی‘ کہہ رہے تھے۔
ان کی دلیل تھی کہ فلم کا باغی ہیرو ہندو خاندانی اقدار کو روند ڈالتا ہے۔
ساٹھ کی دہائی تک تاریخ میدان جنگ بن چکی تھی۔ کے آصف کی مغلِ اعظم (1960) نے اپنی شان و شوکت، اردو مکالموں اور اکبر اعظم کی انسان دوست تصویر سے شائقین کو مسحور کر دیا۔ لاکھوں لوگ ٹکٹ لینے کو قطار میں لگے جبکہ آر ایس ایس کے رسالوں میں لکھا گیا کہ یہ ’حملہ آوروں کو ہیرو بنانے کی‘ گھناؤنی سازش ہے۔
آر ایس ایس کی بےچینی انارکلی اور سلیم کی محبت پر نہ تھی بلکہ اس بات پر تھی کہ ہندوستان میں ایک مسلم سلطنت کی شان میں قصیدے پڑھے جا رہے ہیں۔
اسی دوران منوج کمار کے ’بھارت کمار‘ کا ظہور ہوا۔ ان کی فلم اپکار (1967) جس میں ’جے جوان جے کسان‘ کا نعرہ اور حب الوطنی کا رنگ زید زعفرانی تھا۔ رومانوی کہانیوں یا مسلم سوشل سینما کے برعکس یہاں ایک ہندو کسان محب وطن تھا جو مٹی کی پوجا کرتا، بھارت ماتا کو سجدہ کرتا۔ آر ایس ایس کے کارکنان غیر رسمی طور پر منوج کمار کو ’اصلی ماڈل ہیرو‘ کہنے لگے، حالانکہ وہ خود کبھی آر ایس ایس سے براہِ راست وابستہ نہیں ہوئے۔
ایبٹ آباد کے ہری کشن گوسوامی جنہوں نے یوسف خان کی فلم 'شبنم‘ دیکھ کر اپنا نام تبدیل کر لیا اور ہمیشہ انہیں اپنا دیوتا مانا۔ پانچ برس کی بریک کے بعد دلیپ کمار کی واپسی منوج کمار کی فلم ’کرانتی‘ سے ہی ہوئی جس میں ہندو مسلم مل کر دیش کے لیے لڑتے ہیں۔
ستر کی دہائی میں ہندوستانی سیاست اور فلم دونوں بھونچال کے زد پر تھے۔ ایمرجنسی کے دنوں میں جب آر ایس ایس پر پابندیاں لگیں اور کارکنان جیلوں میں ڈالے گئے، تب پردے پر امیتابھ بچن کا ’اینگری ینگ مین‘ ابھر رہا تھا۔ زنجیر (1973) اور دیوار (1975) میں اس کا غصہ بدعنوان ریاست کے خلاف پھٹ پڑا۔
بالی وڈ کے ساتھ دہائیوں کی کشمکش کے بعد آر ایس ایس کے ہاتھ پہلا بڑا شکار 1987 میں لگا جب رامانند ساگر کی ’رامائن‘ ٹی وی پر آئی۔ لوگ اتوار کی صبح آرتیاں کرتے، ٹی وی کے سامنے ہاتھ جوڑتے۔ سنگھ کے لیے یہ سب سے بڑا ثقافتی فتح نامہ تھا، مذہبی داستان کو کروڑوں گھروں میں زندہ حقیقت بنا دینا۔
نوے کی دہائی میں جب رام جنم بھومی تحریک اٹھی تو بالی ووڈ نے بھی نیا رخ اختیار کیا۔ حب الوطنی اور مذہبی حوالوں والی فلمیں زیادہ فروخت ہونے لگیں۔ فلم ساز سمجھ گئے تھے کہ ’بازار‘ کی نبض زعفرانی مٹھی میں دھڑک رہی ہے۔ اب آر ایس ایس کو باہر سے تنقید کرنے کی ضرورت نہ رہی، اب سینیما خود ان کے بیانیے کو جگہ دینے لگا تھا۔
اکیسویں صدی میں آر ایس ایس اور اس سے جڑے گروہ فلموں کے براہِ راست نگراں بن گئے۔ ’پدماوت‘ (2018) پر پرتشدد احتجاج ہوئے، کہانی میں کٹوتیاں کی گئیں، ڈسکلیمر لگائے گئے۔ آنوبھو سنہا کی ’بھیڑ‘ (2023) کا ٹریلر ہی سیاست سے خالی کر دیا گیا۔ دوسری طرف ’دی کشمیر فائلز‘ اور ’دی کیرالہ سٹوری‘ جیسی فلموں کو ٹیکس میں چھوٹ، حکومتی پذیرائی اور سیاسی حمایت ملی۔
جو بات پچاس کی دہائی میں اردو شاعری پر اعتراض سے شروع ہوئی تھی، وہ اب ایک منظم دباؤ، بائیکاٹ اور سرکاری سرپرستی کے نظام میں ڈھل چکی ہے۔
انڈیا کی آزادی کے پچاس برس مکمل ہونے پر اے آر رحمان نے ’ماں تجھے سلام‘ کے نام سے ایک گیت تیار کیا۔ یہ نغمہ دو گنیز ورلڈ ریکارڈز رکھتا ہے، اسے 265 زبانوں میں انفرادی طور پر پیش کیا گیا اور دوسرا یہ کہ اسے 277 زبانوں میں اجتماعی طور پر گایا گیا۔
اس نغمے کے بول نغمہ نگار محبوب نے لکھے تھے، جو انہوں نے حب الوطنی اور بھارت ماتا کے تصور کو ملا کر تخلیق کیا۔ جب انہوں نے پہلی بار یہ نغمہ اپنی ماں اور بہن کو سنایا تو وہ آبدیدہ ہو گئیں۔
رحمان نے یہ گانا رات دو بجے ریکارڈ کیا اور ان کے دوست بھارت بالا تب ساؤنڈ انجینیئر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ جب بھارت بالا نے رحمان کو پہلی بار یہ نغمہ گاتے ہوئے سنا تو وہ پہلے ہنسے، پھر رو پڑے۔
یہ گانا 1997 کے البم ’وندے ماترم‘ میں شامل ہے، اسے البم میں نصرت کا ایک گیت بھی شامل ہے۔
پہلے ہفتے ہی اس البم کی پانچ لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں اور یہ بھارت کا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا نان فلمی البم بن گیا۔
اس کا موسیقار وہ شخص ہے جو ہندو سے مسلمان ہوا، گیت کار مسلمان اور سننے والے سب ہندو مسلم۔ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران آر ایس ایس نے جس طرح کا ماحول بنا رکھا ہے اس میں کسی ایسے گیت کی تخلیق کا سوچا جا سکتا ہے؟
ستیہ جیت رے نے بالی وڈ کی آڈینس کو احمقوں سے تشبیہ دی تھی۔ انہوں نے بالی وڈ سامعین کی سطحی حب الوطنی اور مذہب پرستی کو شدید تنقید کی زد پر رکھا تھا۔ اگر وہ آج کی فلموں اور بالی وڈ کا ماحول دیکھیں تو شاید الفاظ ان کے جذبات کی ترجمانی نہ کر سکیں۔
ہندوستانی سینیما کی کثیرالثقافتی روح خود ساختہ سنسرشپ کی چھلنی میں تار تار ہو گئی۔
آر ایس ایس کے ساتھ بالی وڈ کا سفر ایک فلمی سکرپٹ کی طرح لگتا ہے: پچاس کی دہائی میں شبہ، ساٹھ کی دہائی میں غصہ، ستر میں موقع، اسی اور نوے میں جادو کی جپھی اور اکیسویں صدی میں پوری طرح غلبہ۔
اب بالی وڈ سکرین سے محض زعفرانی رنگ جھلکتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔