مجھے لگا یہ کام آسان ہو گا۔ اتنا کہ میں نے سوچا کہ یہ تو بغیر سوچے سمجھے ہو جائے گا، لیکن جب میں بیٹھ کر 150 ایسے لوگوں کی فہرست بنانے کی کوشش کرتی ہوں جن سے میرا باہمی اور مسلسل رابطہ ہے تو میں تقریباً 134 دوستوں پر پہنچ کر رک جاتی ہوں۔
یہ ذرا شرمناک سا لمحہ ہے۔ میں ایک بالکل عام، بلکہ کہہ لیجیے ذرا سی زیادہ ملنسار 30 سالہ خاتون ہوں۔ شاید اوسط شخص سے کچھ زیادہ ہی باتونی، وہی جو ہر کمیٹی، کلب یا حتیٰ کہ کسی واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے کو تیار رہتی ہے۔
پھر بھی میں یہاں رک گئی ہوں، فون گھما گھما کر دیکھ رہی ہوں، شاید کوئی ایسا شخص رہ نہ گیا ہو، جو اس فہرست میں شامل ہونا چاہیے تھا۔
مجھے واضح کر دینا چاہیے کہ یہ 150 کا عدد میں نے خود سے نہیں گھڑ لیا۔ یہ دراصل ’ڈنبرز نمبر‘ (Dunbar’s Number) کہلاتا ہے جسے ایک ماہر نفسیات رابن ڈنبر نے پیش کیا تھا۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں ارتقائی نفسیات کے ممتاز پروفیسر ہیں لیکن اگر سادہ الفاظ میں کہا جائے تو وہ ’دا فرینڈشپ ڈان‘ (دوستی گرو) ہیں۔
وہ گذشتہ 50 برسوں سے انسانی تعلقات کے نشیب و فراز کا مطالعہ کر رہے ہیں، جسے وہ اپنے الفاظ میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں: ’بندر (عام طور پر) اور انسان (خاص طور پر) جیسے جانداروں میں سماجی رشتوں کو جوڑنے والے رویوں، ذہنی اور اعصابی و ہارمون نظاموں کا مطالعہ۔‘
ڈنبر نے سب سے پہلے یہ نظریہ پیش کیا کہ انسان کا قدرتی سماجی دائرہ تقریباً 150 افراد پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ نتیجہ انہیں بندروں اور بن مانسوں کے دماغوں کے مطالعے کے بعد ملا۔
وہ دراصل دماغ کے سائز اور گروپ کے سائز کے درمیان تعلق کی جانچ کر رہے تھے۔
ڈنبر نے مجھ سے گفتگو میں بتایا: ’مثال کے طور پر چمپینزی فطری طور پر تقریباً 50 کے گروہوں میں رہتے ہیں۔ جب میں نے انسان کے دماغ کا سائز اس فاومولے میں ڈالا، تو نتیجہ تقریباً 150 آیا۔‘
کسی اچھے محقق کی طرح ڈنبر نے پھر اس راؤنڈ فیگر کے حق میں اصل دنیا سے شواہد تلاش کیے اور حیرت انگیز طور پر انسانی تاریخ میں اس کے بہت سے ثبوت ملے۔
انہوں نے یہ تعلق شکار کرنے والے قبائل میں دیکھا یعنی وہ معاشرے جن میں انسان نے پہلی بار بڑے گروہوں میں بسنا شروع کیا تھا۔ ڈنبر نے پایا کہ انسانوں کے گروہ تقریباً 150 افراد پر مشتمل ہونے کا اصول صرف آج نہیں بلکہ مختلف زمانوں اور ثقافتوں میں بھی درست نکلتا ہے۔ انہوں نے یہ ثبوت پرانے تاریخی ریکارڈز میں بھی تلاش کیے جیسے ’ڈومز ڈے بک ‘ (انگلینڈ کا قدیم مردم شماری کا ریکارڈ)۔
اٹلی کی چرواہوں کی انجمنوں کے کاغذات، امش اور ہیٹرائٹ مذہبی برادریوں کے گرجا گھروں کے ریکارڈز اور ماہی گیر بستیوں کی مردم شماری کے اعداد و شمار میں بھی اس کے شواہد ملے۔
جدید دور میں بھی یہی پیٹرن دوستیوں پر لاگو ہوتا دکھائی دیا، جیسے 90 کی دہائی میں جب لوگ اب بھی کرسمس کارڈ بھیجا کرتے تھے، تب بھی اوسط فہرستوں میں یہی 150 کا ہندسہ نمایاں تھا۔
اسی طرح فون کالز کے ریکارڈز میں بھی، ایک بڑے ڈیٹا سیٹ کے مطابق ایک سال میں ایسے لوگوں کی اوسط تعداد جن سے دو طرفہ کال کا تبادلہ ہوا، تقریباً 150 تھی۔
یہ رجحان سوشل میڈیا پر بھی دہرایا گیا۔ ڈنبر اور ان کی ٹیم نے امریکہ کے چھ کروڑ 10 لاکھ فیس بک صارفین کے ڈیٹا کا جائزہ لیا، تو حیرت انگیز طور پر فی صارف دوستوں کی اوسط تعداد 149 نکلی۔
یہ دیکھ کر خود ڈنبر بھی مسکرائے۔ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا: ’ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ پیش گوئی حقیقت سے اتنی قریب نکل آئے۔‘
یہ نتیجہ سن کر کہ سوشل میڈیا نے ہمارے تعلقات کے دائرے کو درحقیقت وسیع نہیں کیا، ایک عجیب سا اطمینان محسوس ہوتا ہے۔
میں نے دوستیوں کی تعداد کے بارے میں تحقیق اس لیے شروع کی تھی کہ مجھے اکثر نئی دوستیاں بنانے اور پرانے رشتے برقرار رکھنے کے درمیان پھنس جانے کا احساس ہوتا تھا۔
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے اس احساسِ ناکامی کو مزید بڑھا دیا کیونکہ آج کے زمانے میں میں کسی بھی لمحے فیس بک پر یونیورسٹی کے کسی پرانے ساتھی کو میسج کر سکتی ہوں، انسٹاگرام پر کسی سابقہ کولیگ کو میسج کر سکتی ہوں یا واٹس ایپ پر کسی سیاحتی مقام پر ملی ہوئی خاتون کو لکھ سکتی ہوں، تو جب میں ایسا نہیں کرتی تو یوں لگتا ہے جیسے میں ناکام ہو رہی ہوں۔
پرانے زمانے میں، اگر مجھ سے اس خاتون کا پتہ گم بھی ہو جاتا تو زندگی آگے بڑھ جاتی مگر اب، ہر وہ شخص جس سے کبھی رابطہ ممکن تھا، میرے ضمیر پر بوجھ بن جاتا ہے۔
پھر یہ بھی ہے کہ جب سے میں لندن سے ایک چھوٹے شہر میں منتقل ہوئی ہوں، مجھے ہر نئے ملنے والے سے دوستی کرنے کا دباؤ محسوس ہوتا ہے۔
چھوٹے معاشرے میں یہ ماننا مشکل لگتا ہے کہ کچھ لوگ صرف جان پہچان والے ہی رہیں گے نہ کہ ’بیسٹ فرینڈز فار ایور‘۔
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ممکنہ دوستوں کی تعداد کم ہے، اس لیے دل میں وہم پیدا ہوتا ہے کہ اگر میں بس تھوڑا اور جتن کر لوں تو سب کو اپنا بنا سکتی ہوں، جیسے کوئی پوکیمون گیم کھیل رہی ہوں، لیکن حقیقت میں، میں ایسا کر ہی نہیں سکتی۔
ڈنبر کا نظریہ ہے کہ انسان کے گروپ سائز کا ارتقا ابتدائی بقا سے جڑا ہوا تھا یعنی شیر، ببر شیر اور ریچھ جیسے شکاریوں سے بچاؤ کے لیے۔
بعد میں یہی سماجی ڈھانچے دوسرے انسانوں سے تحفظ کے لیے بھی کارآمد ثابت ہوئے۔
بڑے گروہ کے فائدے یہ بھی تھے کہ اس سے فصل کی کٹائی، بچوں کی پرورش اور کاموں کی تقسیم میں مدد ملتی تھی۔
لیکن ایک اور دلچسپ نکتہ بھی ہے جو ڈنبر نے دوسرے جانوروں کے مطالعے سے اخذ کیا یعنی اکثر گروپ کے حجم معلومات کے تبادلے کی بہترین سطح سے جڑے ہوتے ہیں۔
آخرکار بات یہ ہے کہ ہمیں یہ جاننا ہوتا ہے کہ کون کس سے جڑا ہے، کیا کر رہا ہے اور کس کا کس سے رشتہ ہے۔ جیسے ہم اپنے سماجی نیٹ ورک کی ایک ذہنی تصویر ترتیب دیتے ہیں۔
ہمارے پاس دوسروں سے گفتگو کے لیے، چاہے حقیقی زندگی میں ہو یا آن لائن، ایک محدود وقت ہوتا ہے اور یہی وقت تعلق کو مضبوط بناتا ہے۔
ڈنبر کے مطابق، آپ کے ذاتی تعلقات کا دائرہ اس بات پر بھی منحصر ہو سکتا ہے کہ آپ انٹروورٹ (کم بولنے والے) ہیں یا ایکسٹروورٹ (زیادہ میل جول رکھنے والے)۔
انٹروورٹس کم مگر گہرے تعلقات رکھتے ہیں جب کہ ایکسٹروورٹ زیادہ مگر کم گہرے۔
لیکن اگر آپ 150 سے زیادہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کریں، تو آپ دوستی کے معیار کو کمزور کر دیتے ہیں کیونکہ آپ اپنا سماجی سرمایہ بہت زیادہ پھیلا دیتے ہیں۔
ڈنبر خبردار کرتے ہیں کہ ’ہماری سماجی توانائی محدود ہے کیونکہ آخرکار یہ وقت کی سرمایہ کاری سے بنتی ہے اور وقت ہی جذباتی تعلق پیدا کرتا ہے۔‘
یعنی ہمارے پاس دوسروں سے گفتگو کے لیے، چاہے حقیقی زندگی میں ہو یا آن لائن، ایک محدود وقت ہوتا ہے اور یہی وقت تعلق کو مضبوط بناتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’آپ اس کیک کو مختلف انداز سے کاٹ سکتے ہیں لیکن خیال رہے کہ زیادہ باریک نہ کاٹیں۔ اگر آپ نے حد سے زیادہ تقسیم کیا، تو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔‘
اگرچہ بے شمار تحقیقی مطالعات یہ ثابت کر چکے ہیں کہ دوستیاں انسانی صحت کے لیے بے پناہ فائدہ مند ہیں، عمر بڑھانے کے معاملے میں یہ خوراک، ورزش اور نیند کے برابر اہم مانی جاتی ہیں، مگر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ تعلقات کی مقدار سے زیادہ ان کا معیار معنی رکھتا ہے۔
ڈنبر کے مطابق، ہماری سماجی زندگی میں بھی ایک ’گولڈی لاکس‘ لمحہ (یعنی بالکل مناسب توازن) ہوتا ہے یعنی نہ بہت کم دوست، نہ بہت زیادہ۔
وہ ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہیں جس نے دوستیوں اور ڈپریشن کے درمیان تعلق کو جانچا اور نتیجہ حیران کن تھا، یعنی جن لوگوں کے دوست بہت کم یا بہت زیادہ تھے، ان میں مستقبل میں ڈپریشن کا امکان کہیں زیادہ پایا گیا لیکن جن کے تقریباً پانچ سچے، قریبی دوست تھے، ان کے لیے یہ خطرہ انتہائی کم تھا۔
اسی نتیجے پر خود ڈنبر بھی پہنچے۔ ان کے مطابق، تمام دوست برابر نہیں ہوتے۔
اگر کوئی شخص آپ کی مجموعی 150 کی فہرست میں شامل ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اور وہ کم از کم سال میں ایک بار ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں، وہ کوئی ایسا شخص ہے جسے آپ اپنے گھر مدعو کرنے میں عجیب محسوس نہیں کریں گے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو آپ کی شادی یا کسی بڑے موقعے پر مدعو کیے جانے والوں کی فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں، لیکن ان 150 کے اندر بھی قربت کی مختلف پرتیں ہوتی ہیں۔
ذہن میں ایک نشانہ بازی کے بورڈ کی تصویر لائیں، جس میں آپ مرکز میں ہیں اور آپ کے اردگرد گول دائرے پھیل رہے ہیں۔
اندرونی دائرہ مطلب ’پانچ سب سے قریبی دوست‘ جنہیں ہم ’رائڈ اینڈ ڈائے‘ یعنی ہر حال میں ساتھ نبھانے والے، یا ’کندھا دینے والے‘ دوست کہہ سکتے ہیں۔
ان میں بعض اوقات خاندان کے چند افراد یا کوئی خاص شریکِ حیات بھی شامل ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دروازے پر آپ رات کے تین بجے روتے ہوئے بھی پہنچ جائیں تو وہ آپ کو گلے لگا لیں گے۔
میرے اپنے دوستی کے نقشے میں بھی یہ گروپ ٹھیک پانچ افراد پر مشتمل ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں بھی عین پانچ ہی لوگ شامل ہیں۔
تحقیقات کے مطابق اس دائرے میں تبدیلی بہت کم آتی ہے یعنی کوئی نیا شخص صرف ایک دہائی میں ایک بار ہی شامل یا خارج ہوتا ہے۔ اس تعلق کو برقرار رکھنے کی اصل کنجی رابطہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن سے آپ کم از کم ہفتے میں ایک بار ضرور بات کرتے ہو۔ اگر رابطہ ختم ہو جائے تو ڈنبر کے بقول، ’وہ آہستہ آہستہ اس دائرے سے باہر سرکنے لگتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگلی سطح 15 افراد پر مشتمل ہے۔ ان میں وہ پانچ قریبی لوگ بھی شامل ہیں، ساتھ مزید 10 جنہیں ڈنبر ’اہم سماجی دوست‘ کہتے ہیں۔ یعنی وہ جنہیں آپ باقاعدگی سے دیکھتے ہیں، چاہے وہ قریبی دوست ہوں یا گھر کے افراد۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے آپ کم از کم مہینے میں ایک بار ملتے ہو۔ آپ کے میل جول اور سماجی وقت کا تقریباً 60 فیصد حصہ انہی 15 افراد پر صرف ہوتا ہے۔ ذرا سا غور کرنے پر یہ گروہ بھی میرے لیے پہچاننا آسان تھا۔
اس کے بعد آتی ہے وہ جماعت جسے ڈنبر نے مزاحاً ’ویک اینڈ بیک یارڈ باربی کیو پارٹی گروپ‘ کہتے ہیں یعنی 50 افراد پر مشتمل وہ حلقہ جس میں وہ پچھلے 15 بھی شامل ہیں۔ میں نے جب اپنا حساب لگایا تو یہاں تقریباً 57 تک پہنچ گئی (بالآخر میری غیر معمولی سماجی زندگی کام آ ہی گئی) اور پھر پوری 150 کی فہرست مکمل کرنے میں جت گئی۔
کچھ محنت اور واٹس ایپ کی کھوج کے بعد میرا نمبر 153 پر جا کر رکا اور عملی طور پر یہ ظاہر ہوا کہ ڈنبر کا عدد حیرت انگیز حد تک درست ہے۔
یقیناً، تمام محققین ڈنبر سے متفق نہیں۔ 2021 میں سٹاک ہوم یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک تحقیق میں دعویٰ کیا کہ 150 کی یہ حد غلط طور پر کم سمجھی گئی ہے اور کسی بھی مقررہ حد کا تعین درحقیقت ممکن نہیں۔
خود ڈنبر نے بھی اپنے ڈیٹا میں ایک ہارس شو پیٹرن دیکھا یعنی عمر کے لحاظ سے دوستیوں کی تعداد بدلتی ہے۔ نوجوانی اور بڑھاپے، دونوں مرحلوں میں انسان کے دوستوں کی کل تعداد کم ہو جاتی ہے، جب کہ درمیانی عمر میں یہ زیادہ رہتی ہے۔
لیکن اس سب کے باوجود 150 کا یہ ’جادوئی نمبر‘ اب بھی دلکش اور قائل کر دینے والا نظریہ مانا جاتا ہے۔
ہم شاید کبھی شعوری طور پر اپنی دوستیوں کے لیے کوئی ’ون اِن، ون آؤٹ‘ پالیسی نہیں اپناتے مگر حقیقت یہ ہے کہ تعلقات قدرتی طور پر بدلتے رہتے ہیں۔
یہ ایک طرح کا ہم آہنگ ارتقائی نظام ہے، یعنی ایک رشتہ کمزور پڑتا ہے تو دوسرا مضبوط ہو جاتا ہے، کوئی تعلق ماند پڑتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔
یہ تبدیلی رفتہ رفتہ ہوتی ہے اور اکثر اس کا سیدھا تعلق رابطے کی تعداد سے ہوتا ہے۔
ڈنبر کے مطابق: ’اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ کسی شخص کو آپ کے قریبی 15 کے دائرے سے نکل کر مجموعی 150 سے باہر ہونے میں تقریباً دو سے تین سال لگتے ہیں۔‘
مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ آنا جانا، اتار چڑھاؤ اور فاصلہ بڑھنا زندگی کے فطری عمل کا حصہ ہے۔ یہ بالکل نارمل ہے۔
جدید ٹیکنالوجی ہمیں یہ احساس دلاتی رہتی ہے کہ ہم شاید کسی نہ کسی تعلق میں ناکام ہو رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوستیاں بھی موسموں کی طرح بدلتی ہیں اور اکثر حالات و ماحول پر منحصر ہوتی ہیں۔ جس شخص کے ساتھ آپ کبھی رات گئے تک بیٹھ کر دنیا جہاں کی باتیں کرتے تھے، وہ شاید زندگی کے کسی موڑ پر صرف ایک اچھی یاد بن جائے۔
اسی طرح جو والدین روزانہ سکول گیٹ پر ملتے ہیں، وہ بچوں کے بڑے ہونے کے بعد شاید کبھی کبھار ہی یاد آئیں۔
ہم ہر ایک سے دوستی نہیں کر سکتے۔ کبھی کبھی کوئی اجنبی بس ایک ممکنہ دوست ہوتا ہے لیکن اگر وہ اجنبی ہی رہے تو یہ بھی بالکل ٹھیک ہے۔
© The Independent