زیادہ سکرین ٹائم بچوں میں سماجی و جذباتی مسائل کا باعث: تحقیق

محققین کے مطابق: ’سکرین ٹائم میں اضافہ جذباتی اور رویوں سے متعلق مسائل کو جنم دے سکتا ہے اور ایسے مسائل کا شکار بچے ان سے نمٹنے کے لیے مزید سکرین کی طرف راغب ہوتے ہیں۔‘

27 نومبر 2024 کو جکارتہ میں سڑک کے کنارے بچے اپنے موبائل فون پر آن لائن گیمز کھیل رہے ہیں (اے ایف پی)

محققین نے خبردار کیا ہے کہ سکرین ٹائم بچوں کی ذہنی صحت کے لیے ایک شیطانی چکر بن سکتا ہے۔

تحقیق کے مطابق جن بچوں کا سکرین ٹائم زیادہ ہوتا ہے، ان میں بے چینی، ڈپریشن اور جارحانہ رویوں جیسے مسائل پیدا ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

جن بچوں کو یہ مسائل لاحق تھے، ان کے بارے میں یہ بھی پایا گیا کہ وہ زیادہ تر سکرین کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ اس تحقیق میں سکرین سے متعلق سرگرمیوں میں سوشل میڈیا، ویڈیو گیمز، ٹی وی اور آن لائن ہوم ورک شامل تھا۔

آسٹریلیا کی کوئنزلینڈ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر مائیکل نوئٹل نے کہا: ’بچے آج کل تفریح، ہوم ورک اور دوستوں سے رابطے کے لیے سکرین پر زیادہ وقت گزار رہے ہیں۔ ہم نے مشاہدہ کیا کہ سکرین ٹائم میں اضافہ جذباتی اور رویوں سے متعلق مسائل کو جنم دے سکتا ہے اور ایسے مسائل کا شکار بچے ان سے نمٹنے کے لیے مزید سکرین کی طرف راغب ہوتے ہیں۔‘

نوئٹل اس تحقیق کے مصنفین میں شامل تھے، جو امیریکن نفسیاتی ایسوسی ایشن نے کی اور جسے پیر کو جریدہ ’سائیکولوجیکل بلیٹن‘ میں شائع کیا گیا۔

اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم نے 117 مطالعات کا جائزہ لیا اور ان کا مشترکہ تجزیہ کیا، جن میں دنیا بھر سے دو لاکھ 92 ہزار سے زائد بچوں کا ڈیٹا شامل تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مقصد اس بات کو بہتر طور پر سمجھنا تھا کہ سکرین کے استعمال اور بچوں میں سماجی و جذباتی مسائل، جیسے جارحیت، بے چینی اور کم خود اعتمادی کے درمیان کیا تعلق ہے۔

زیادہ تر مطالعات امریکہ میں کیے گئے، تاہم کینیڈا، آسٹریلیا، جرمنی اور نیدرلینڈز سے بھی کچھ تحقیقات شامل تھیں۔

ان میں وہ تمام مطالعات شامل کیے گئے، جن میں 10 سال سے کم عمر بچوں کو شامل کیا گیا تھا اور جن میں سکرین کے استعمال اور سماجی و جذباتی مسائل کی پیمائش کی گئی تھی۔ ان بچوں کی کم از کم چھ ماہ تک نگرانی کی گئی۔

تحقیق سے معلوم ہوا کہ چھ سے 10 سال کے درمیانی عمر کے بچے سکرین کے زیادہ استعمال کے باعث سماجی و جذباتی مسائل کا شکار ہونے کے امکانات زیادہ رکھتے ہیں اور عمومی طور پر لڑکیاں ایسے مسائل کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔

لڑکوں میں ایسے مسائل کا سامنا ہونے پر سکرین پر وقت گزارنے کا رجحان زیادہ پایا گیا۔

تحقیق کے مطابق تعلیمی یا تفریحی سکرین کے استعمال کے مقابلے میں ویڈیو گیمز کے ساتھ وقت گزارنا زیادہ خطرناک ثابت ہوا۔

وہ بچے جو پہلے ہی سماجی و جذباتی مسائل کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں، ان میں گیمز کی طرف رجحان زیادہ ہوتا ہے تاکہ وہ ان مسائل سے نمٹ سکیں۔

واسکونسیلوس نے سی این این کو بتایا: ’آن لائن گیمز خاص طور پر اضافی خطرات پیدا کرتے ہیں کیونکہ یہ اکثر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی طرح کام کرتے ہیں۔ چونکہ یہ گیمز اس وقت بھی چلتے رہتے ہیں جب کھلاڑی لاگ آؤٹ کر جائے، اس لیے بچوں کو طویل وقت تک جڑے رہنے کا دباؤ محسوس ہو سکتا ہے، جس سے وہ نیند، سکول کا کام اور بالمشافہ میل جول جیسی اہم حقیقی سرگرمیاں نظر انداز کر سکتے ہیں۔‘

اگرچہ کچھ گیمز ذہنی دباؤ، ڈپریشن اور اے ڈی ایچ ڈی جیسے مسائل کا سامنا کرنے والے بچوں اور نوجوانوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں، انہیں ایک کمیونٹی سے جوڑ سکتے ہیں، ذہنی کارکردگی بہتر بنا سکتے ہیں یا مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت پیدا کر سکتے ہیں، لیکن گیمنگ کو ساتھیوں کے ساتھ کم تعلقات اور بڑھتے ہوئے غصے سے بھی جوڑا گیا ہے۔

کڈز مینٹل ہیلتھ فاؤنڈیشن کی نشاندہی کے مطابق، تاہم بچوں کا گیمز کے ساتھ تعلق اور استعمال کا طریقہ مختلف ہوتا ہے۔

اس کے باوجود یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ والدین کو بچوں کو سکرین ٹائم دینے کے حوالے سے احتیاط سے کام لینا چاہیے اور محض انہیں پرسکون کرنے کے لیے سکرینز ان کے ہاتھ میں نہیں تھما دینی چاہییں۔

فی الحال وفاقی صحت کے حکام سفارش کرتے ہیں کہ دو سال سے کم عمر بچوں کو میڈیا یا کمپیوٹرز کا استعمال نہ کروایا جائے۔

رپورٹس کے مطابق تقریباً نصف امریکی نوعمر نوجوان روزانہ چار یا اس سے زائد گھنٹے سکرین کے سامنے گزارتے ہیں۔

اس گروہ میں وہ نوجوان شامل ہیں، جنہوں نے بے چینی اور ڈپریشن جیسے مسائل کی شکایت کی، ان کی تعداد زیادہ تھی۔

امریکی اکیڈمی برائے چائلڈ اینڈ ایڈولیسنٹ سائیکیاٹری کے مطابق سکرین کے بہت زیادہ استعمال سے نیند کے مسائل، مطالعے میں کمی، جسمانی سرگرمیوں یا باہر وقت گزارنے میں کمی اور وزن سے متعلق مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹروں کے مطابق صبر کے مسائل بھی ہو سکتے ہیں۔

نوئٹل نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ تحقیق کرنے والے مصنفین ان دیگر عوامل کو مکمل طور پر خارج نہیں کر سکتے، جو سکرین کے استعمال اور جذباتی مسائل کو متاثر کرتے ہوں، جیسے والدین کی پرورش کا انداز۔

مطالعے کی مرکزی مصنفہ، یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز کی لیکچرر ڈاکٹر روبیرٹا واسکونسیلوس نے کہا: ’یہ جامع مطالعہ بچوں کے سکرین کے وقت کے انتظام کے لیے ایک باریک بینی سے سوچے گئے نقطہ نظر کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ سکرین کے استعمال اور سماجی و جذباتی مسائل کے درمیان دو طرفہ تعلق کو سمجھ کر، والدین، اساتذہ اور پالیسی ساز بچوں کی صحت مند نشوونما میں بہتر طور پر مدد فراہم کر سکتے ہیں، خاص طور پر تیزی سے ڈیجیٹل ہوتی اس دنیا میں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی