معاشی ادارے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے ایک ارب 17 کروڑ ڈالر قرض کی منظوری دے دی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس ادارے نے کبھی ماضی میں کسی دوسرے ملک کے لیے قرض پروگرام کی منظوری، قرضے کی قسط کے اجرا یا جائزہ مکمل کرنے کے لیے برآمدات و درآمدات پر پابندی لگانے یا ہٹانے کی کبھی کوئی شرط لگائی یا سفارش کی ہے؟
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کا کہنا ہے کہ پرتعیش اشیا کی درآمد پر عائد پابندی ہٹانا ان کی ’بین الاقوامی مجبوری‘ تھی کیونکہ آئی ایم ایف چاہتا تھا کہ وہ یہ واضح کریں کہ حکومت ان اشیا کی درآمد پر پابندی کب تک ہٹا رہی ہے (جو اب ہٹا دی گئی ہے)۔
جرمن چیمبر آف کامرس نے کبھی لگژری گاڑیوں کی درآمد پر پابندی ہٹانے کا مطالبہ نہیں کیا البتہ پاکستان جرمن بزنس کونسل نے کہا تھا کہ یورپی ممالک اپنی برآمدات کے حوالے سے کافی حساس ہیں، خاص طور پر جب پاکستان یورپی یونین کے پاس جی ایس پی پلس بحال کرانے کے لیے جا رہا ہے تو یہ کافی عجیب بات ہوگی کہ ایک طرف ہم یورپ کو سالانہ 16 ارب ڈالر کی برآمدات بھجوا رہے ہوں مگر دوسری طرف وہاں سے 20 کروڑ ڈالر کی درآمدات پر پابندی لگا دیں۔
اس کے باوجود یہ سوال اہم ہے کہ کیا آئی ایم ایف بطور انٹرنیشنل فنانشل انسٹی ٹیوشن کسی ممبر ملک کو قرضہ دیتے وقت اس کی درآمدات یا برآمدات کو ریگولیٹ کرنے کا مینڈیٹ رکھتا ہے؟ یا پھر آئی ایم ایف کا چارٹر اس کی منیجمنٹ کو کسی رکن ملک کی درآمدات کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار دیتا ہے؟
پاکستان 11 جولائی 1950 کو آئی ایم ایف کا رکن بنا تھا اور اس ادارے میں پاکستان کی سرمایہ کاری دو ارب 64 کروڑ 48 لاکھ ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ آئی ایم ایف کا پاکستان کے لیے یہ 19واں قرض پروگرام ہے، تاہم ادارے کے دستیاب ڈیٹا کے مطابق 1984 سے اب تک پاکستان، آئی ایم ایف سے 21 ارب 37 کروڑ ڈالر قرضہ لے چکا ہے اور اس عرصے میں پاکستان نے 16 ارب 60 کروڑ ڈالر اصل زر جبکہ دو ارب 40 کروڑ ڈالر سے زائد سود کی مد میں آئی ایم ایف کو واپس کیے۔
2026 تک پاکستان کو آئی ایم ایف کو اصل زر اور سود کی مد میں مزید پانچ ارب 59 کروڑ ڈالر واپس کرنے ہوں گے۔
سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود کا کہنا ہے کہ دراصل آئی ایم ایف بورڈ آف ڈائریکٹرز میں انہی ممالک کے نمائندے بیٹھے ہیں جن کی برآمدات کو پاکستان میں آنے سے روکا گیا، جیسا کہ یورپی یونین نے پرتعیش اشیا کی درآمدات پر پابندی ہٹانے کا تقاضا کیا ہے، جو ان کی برآمدات کی بہت بڑی منڈی ہے۔
ڈاکٹر وقار مسعود مزید کہتے ہیں کہ ’اس دباؤ کی وجہ سے پرتعیش اشیا کی درآمد پر عائد پابندی ہٹا لی گئی تاہم اس کے باوجود ایل سی کھولنے پر پابندی ہے اور سٹیٹ بینک آف پاکستان اس معاملے کو دیکھ رہا ہے، کیونکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کی پوزیشن نسبتاً خستہ حال ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ اس میں استحکام آ جائے تو پھر درآمدات پہ عائد تمام پابندیاں ہٹا لی جائیں گی۔‘
کیا آئی ایم ایف اپنے مینڈیٹ کی خلاف ورزی نہیں کر رہا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بین الاقوامی قوانین کے مطابق درآمدات و برآمدات کا تعلق ورلڈ ٹریڈ آگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) سے ہے، اگر کسی ملک کو پاکستان کی طرف سے پرتعیش اشیا کی درآمد پر پابندی سے شکایت ہے تو وہ اپنا مقدمہ ڈبلیو ٹی میں لے جا سکتا ہے، تاہم اگر ڈبلیو ٹی او کو پاکستان کی طرف سے پرتعیش اشیا کی درآمد پر پابندی پر کوئی اعتراض نہیں تو آئی ایم ایف پاکستان کے لیے توسیعی فنڈ فیسلیٹی پروگرام کی بحالی کے لیے یہ شرط کیوں کر عائد کر سکتا ہے۔
سابق مشیر خزانہ سندھ اور اقتصادی ماہر ڈاکٹر قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ دراصل آئی ایم ایف ایک بینک ہے جو مغربی ممالک کے مفادات کی نمائندگی کرتا ہے، حالانکہ حکومت نے پرتعیش اشیا کی درآمد پر عائد پابندی ہٹانے کے حوالے سے اپنے تحفظات آئی ایم ایف کے سامنے پیش کیے کہ پابندی ہٹائیں گے تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ جائے گا، مگر آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ آپ درآمدات برقرار رکھیں، اگر خسارہ ہوا تو ہم قرضہ دیں گے۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی کا مزید کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے پاکستان میں ایسے حکمران آتے رہے ہیں جو پاکستان کے لوگوں کی بجائے بڑی طاقتوں کے مفادات کی نمائندگی کرتے تھے اور جان بوجھ کے انہوں نے ایسی معاشی پالیسی بنائی، جس کے نتیجے میں پاکستان کو بار بار آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔‘
آئی ایم ایف نے دیگر ملکوں سے درآمدات پر پابندی ہٹانے کا مطالبہ کرتا ہے؟
اگر آئی ایم ایف کے چارٹر کے مطابق یہ ایک بین الاقوامی مالیاتی ادارہ ہے، جس کی اولین ترجیح ہے کہ جس ملک کو کوٹے سے زیادہ قرضہ دیا جا رہا ہے، وہ ملک قرضے کی رقم مع سود واپس کر پائے گا یا نہیں، اگر اس کی معیشت قرضہ واپس کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تو آئی ایم ایف ریونیو بڑھانے اور غیرضروری اخراجات کم کرنے، تجارتی و کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنے کے لیے برآمدات بڑھانے سمیت بعض شرائط عائد کرسکتا ہے۔ آئی ایم ایف کا چارٹر ایسی شرائط کو معاشی اصلاحات کا نام دیتا ہے۔
معیشت کو رپورٹ کرنے والے سینیئر صحافی سید مہتاب حیدر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے کسی دوسرے ملک کو کبھی اس طرح سے نہیں کہا گیا کہ آپ مخصوص مصنوعات کی درآمد بند کریں یا اس پر عائد پابندی ہٹا دیں، ٹریڈ لبرلائزیشن کا تقاضا تو کیا جاتا ہے مگر ان کی تجارت کو کبھی ریگولیٹ نہیں کیا۔
سید مہتاب حیدر کا مزید کہنا ہے کہ ’بنیادی طور پر آئی ایم ایف کا مینڈیٹ نہیں کہ وہ قرضہ مانگنے والے ملک کی تجارت کو ریگولیٹ کرے، لیکن آئی ایم ایف کے چارٹر میں یہ ضرور شامل ہے کہ ٹریڈ کو لبرلائز کیا جائے۔ بنیادی طور پر یہ مینڈیٹ ڈبلیو ٹی او کا ہے لیکن تمام بین الاقوامی مالیاتی ادارے مل کر کام کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’درحقیقت ان مالیاتی اداروں کے بڑے شیئر ہولڈر (امریکہ اور یورپی یونین وغیرہ) دنیا بھر میں مینو فیکچرنگ کے مراکز ہیں، انہوں نے اپنی مصنوعات قرضہ لینے والے ترقی پذیر ممالک کی منڈیوں میں فروخت کرنی ہوتی ہیں، اس لیے وہ اس کو ٹریڈ لبرلائزیشن کا نام دیتے ہیں اور قرضہ لینے والے ممالک کو ٹریڈ لبرلائزیشن کے نام پر کہا جاتا ہے کہ برآمدات و درآمدات پہ پابندیاں نہ لگائی جائیں۔‘