آمنہ ایک نجی دفتر میں ملازمت کرتی ہیں۔ ان کی ماہانہ تنخواہ 20 ہزار روپے ہے اور ان کے شوہر پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا ہیں۔ ایسے میں چار بچے اور ایک شوہر کی ذمہ داری آمنہ کے کندھوں پر ہے۔
مہنگائی کی شرح 25 فیصد تک پہنچنے کی وجہ سے ان کے گھر کا معاشی نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے۔ مجبوراً انہیں دفتر سے قرض لے کر گھر کا خرچ پورا کرنا پڑا ہے۔
آمنہ کو امید تھی کہ ڈالر ریٹ کم ہونے اور آئی ایم ایف قرض ملنے کے بعد مہنگائی کم ہو گی، لیکن انہیں اس وقت مایوسی ہوئی جب انہوں نے ٹی وی پر وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حکومت مِنی بجٹ پیش کرے گی، جس سے لگژری اشیا پر تین سو فیصد تک اضافی ٹیکس لگایا جائے گا۔
آمنہ لگژری اشیا کی خریدار نہیں مگر وہ جانتی ہیں کہ جب لگژری اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو مقامی سطح پر بننے والی اشیا کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں اشیا کی قیمت اسے بنانے کی لاگت کی مناسبت سے طے نہیں ہوتی بلکہ مارکیٹ میں مہنگی پراڈکٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے قیمت طے کی جاتی ہے۔ حکومت کی پرائس کنٹرول کمیٹیاں غیر فعال ہونے کی وجہ سے کم معیار کی نان لگژری اشیا کی قیمتوں میں اضافے پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔
اس حساب سے لگژری اشیا پر اضافی ٹیکس غریبوں اور امیروں کو برابر متاثر کرتا ہے۔
آمنہ کا کہنا ہے کہ میں تو حکومت کی بہتر کارکردگی کو اس وقت مانوں گی جب لگژری اشیا پر ٹیکس بڑھانے سے نان لگژری اشیا کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہو اور میرے گھر کا بجٹ 20 ہزار روپے میں مینج ہو جائے۔
بقول آمنہ: ’اگر امیروں پر ٹیکس لگانے سے غریبوں کے لیے بھی مہنگائی بڑھنی ہے تو ایسے ٹیکس کا پاکستانی عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘
آمنہ نے وزیرخزانہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حکومت سگریٹ پر ٹیکس بڑھا رہی ہے تاکہ اس کے استعمال میں کمی لائی جا سکے۔ آمنہ کے شوہر سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہی بیمار ہوئے اور کمانے کے قابل نہیں رہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کا سگریٹ پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ حوصلہ افزا ہے، تاکہ جس ’طرح میرا شوہر بیمار ہوا ہے اور مجھے کمانے کے لیے گھر سے باہر نکلنا پڑا ہے، کسی اور کے ساتھ ایسا نہ ہو۔‘
وہ یہ بھی سوچتی ہیں کہ کیا حکومت اس فیصلے پر قائم رہ پائے گی۔ پچھلی حکومت نے بھی سگریٹ پر ٹیکس لگائے تھے لیکن طاقتور حلقوں نے یہ فیصلہ واپس کروا دیا تھا۔ اگر موجودہ حکومت بھی اپنے فیصلوں پر قائم نہیں رہ سکتی تو یہ بڑے دعوے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہیں۔
درآمدات پر پابندی کے معیشت پر اثرات کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے بلال اسلم سے بات کی جو درآمدات، مینوفکچرنگ اور برآمدات کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کا لگژری آئٹمز کی درآمدات پر سے پابندی ہٹانے کا فیصلہ زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے کیونکہ جو لوگ لگژری آئٹمز استعمال کرتے ہیں وہ دو گنا قیمت پر بھی اسے خرید لیں گے، جس سے ڈالر باہر جانے کا راستہ نہیں رکے گا۔ مسئلہ سمگلنگ ہے۔
بقول بلال اسلم: ’میری انڈسٹری کا خام مال 310 روپے میں درآمد ہوتا ہے، جبکہ ایران سے اسی خام مال سے مکمل تیار شدہ مال 300 روپے سے کم میں پاکستان سمگل ہو رہا ہے۔ حکومت کو درآمدات پر ٹیکس لگانے کے ساتھ سمگلنگ کے راستے بھی بند کرنا ہوں گے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو درآمدات سے پابندی ہٹانے کے دو طرفہ نقصانات ہوں گے۔ ایک طرف ڈالر ملک سے باہر جائے گا اور دوسری طرف مقامی صنعتیں بند ہو سکتی ہیں۔
گاڑیوں کی درآمدات اور خرید و فروخت کا وسیع کاروبار کرنے والے میاں فیض احمد نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ گاڑیوں کی درآمدات پر سے پابندی ہٹانا بہتر فیصلہ ہے۔ اربوں روپے کا سامان بندرگاہوں پر پھنسا ہوا ہے، جس سے سرمایہ کار پریشان ہیں۔
’امید ہے کہ اب مشکلات میں کمی آنا شروع ہو جائے گی۔ سی بی یو یونٹس کی درآمدات سے مقابلے کی فضا بہتر ہو گی اور مقامی سطح پر تیار ہونے والی گاڑیوں کی قیمت میں بھی کمی آئے گی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اس سے اون منی میں بھی کمی آنے کی توقع ہے۔ اس وقت مارکیٹ میں سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کی قیمتیں غیر ضروری طور پر بڑھی ہوئی ہیں اور مارکیٹ میں اصل خریدار نہ ہونے کے برابر ہے۔‘
بقول میاں فیض احمد: ’آٹو سیکٹر پچھلے تین ماہ سے شدید بحران کا شکار ہے، جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومتی فیصلے سے آٹو انڈسٹری کی رونقیں بحال ہوں گی۔ اس کا فائدہ نہ صرف آٹو سیکٹر کو ہو گا بلکہ حکومتی ٹیکس آمدن میں بھی اضافہ ہو گا۔ گاڑی کی امپورٹ سے لے کر رجسٹریشن اور ٹرانسفر تک سرکار گاڑی کی قیمت کا تقریباً 50 فیصد ٹیکس وصول کرتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ کہتے ہیں کہ ’مہنگی گاڑیوں پر امپورٹ ڈیوٹی بڑھانا بہتر فیصلہ ہے۔ جو لگژری سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں، وہ اس کی قیمت بھی ادا کریں۔‘
پاکستان کی ’سب سے بڑی‘ بیکری چین کے مالک حاجی ریاض الدین کہتے ہیں کہ لگژری آئٹمز کی درآمدات کھلنے سے کاروبار کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مہنگی چاکلیٹس، فوڈ آئٹمز اور خشک دودھ پر پہلے پابندی تھی اور وہ پشاور کے راستے سمگل ہو کر پاکستان آ رہی تھیں، لہذا ہمیں زیادہ قیمت پر خریدنا پڑتی تھیں لیکن درآمدات کھلنے سے ایک طرف تو ہمیں آسانی ہو جائے گی اور دوسری طرف حکومت کو بھی آمدن آنا شروع ہو جائے گی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ کسٹم اور ایکسائز آفیسرز لگژری آئٹمز کے کوڈ اپنی مرضی سے طے کر رہے ہیں۔ ’جو لگژری آئٹم نہیں بھی ہے اسے بھی لگژری آئٹم کا کوڈ لگا رہے ہیں اور پھر اسے کلیئر کروانے کے لیے رشوت طلب کر رہے ہیں۔‘
’اگر سرکار چاہتی ہے کہ درآمدات پر پابندی ہٹانے سے حقیقی معنوں میں ٹیکس آمدن بڑھے تو کسٹم اور ایکسائز پر چیک اینڈ بیلنس بہتر کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر حکومتی خزانے بھی خالی رہیں گے اور کاروباری حضرات کی پریشانی بھی بڑھتی رہے گی۔‘
اس حوالے سے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ درآمدات پر سے پابندی ہٹانا حکومت کا ذاتی فیصلہ نہیں ہے، بلکہ یہ آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ 29 اگست کو آئی ایم ایف اجلاس سے پہلے حکومت نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پر سو فیصد عمل کرنا ہے۔
’حکومت کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے۔ ایک طرف آئی ایم ایف کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو ختم کرنے کا مطالبہ ہے اور دوسری طرف درآمدات سے پابندی ہٹانے کی شرط رکھی گئی ہے۔ اب حکومت کو برآمدات بڑھانے پر توجہ دینا ہوگی تاکہ توازن برقرار رہ سکے۔ برآمدات کی صنعت کو سبسڈی دینا ہوگی۔‘
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ کہتے ہیں کہ ’مفتاح صاحب کا یہ کہنا کہ ہر درآمد کرنے والا دس فیصد تک برآمدات بھی کرے، گونگلوں پر سے مٹی جھاڑنے کے مترادف ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’برآمدات بڑھانے کے لیے صرف کہہ دینا کافی نہیں بلکہ سبسڈی دینا اور مطلوبہ سہولیات فراہم کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر حکومت توازن برقرار رکھنے میں ناکام ہوئی تو ممکن ہے کہ آئی ایم ایف کا قرض ملنے کے باوجود دوست ممالک اور دیگر بین الاقومی ادارے قرض دینے سے انکار کر دیں۔‘
اس حوالے سے ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنزل سیکریٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان عملی طور پر زیادہ دیر تک درآمدات پر پابندی برقرار نہیں رکھ سکتا۔ پاکستان ڈبلیو ٹی او کا ممبر ہے، جس کے قواعد و ضوابط پاکستان پر لاگو ہوتے ہیں۔
’ڈبلیو ٹی او کے مطابق کوئی ملک جو برآمدات کرتا ہے وہ درآمدات پر پابندی نہیں لگا سکتا۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ ایک ملک پاکستان کی برآمدات قبول کر رہا ہے اور پاکستان اس کی درآمدات پر پابندی لگا دے۔ یہ اخلاقی طور پر بھی غلط ہے اور بین الاقومی قانون بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر پاکستان درآمدات پر سے پابندی نہ ہٹاتا تو اس کی یورپ اور دیگر ممالک کو برآمدات بند ہو سکتی تھیں۔ حکومت نے یہ فیصلہ خوشی سے نہیں کیا بلکہ مجبوری میں کیا ہے، جس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔‘
ظفر پراچہ کے مطابق: ’لگژری آئٹمز کی درآمدات پر پابندی ختم ہونے سے روپے پر دباؤ بڑھ سکتا ہے اور ڈالر ریٹ اوپر جا سکتا ہے۔ فی الحال عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہیں اور حکومت کو آنے والے دنوں میں زیادہ تیل بھی درآمد نہیں کرنا، اس لیے ڈالر ریٹ میں فوراً ڈرامائی تبدیلی کے امکانات کم ہیں لیکن آئی ایم ایف قرض ملنے سے پہلے تک تھوڑا بہت اضافہ ہو سکتا ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’اصل صورت حال کا اندازہ ستمبر میں ہو گا۔ اگر جولائی کی طرح اگست میں بھی درآمدات کے اعداد و شمار بہتر آئے اور برآمدات میں اضافے کا رجحان رہا تو ڈالر پر کنٹرول برقرار رہے گا، لیکن ماضی کے پیش نظر درآمدات کے کنٹرول میں رہنے کے امکانات کم ہیں۔‘
درآمدات سے متعلقہ سٹیک ہولڈرز کی رائے جاننے کے بعد یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ لگژری آئٹمز کی درآمدات پر سے پابندی ہٹانے اور ٹیکس ریٹ بڑھانے سے مہنگائی میں کمی نہیں ہو گی بلکہ آنے والے دن مزید مشکلات لانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
اس سے شرح نمو میں اضافہ ممکن ہے لیکن ڈالر ریٹ بھی بڑھ سکتا ہے۔ معیشت کو فائدہ اسی وقت ہو گا جب درآمدات کی طرح برآمدات میں بھی اضافہ کیا جائے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو سکا تو سرکار کو ایک مرتبہ پھر درآمدات پر پابندی لگانا پڑ سکتی ہے۔