پاکستان کی سرکاری ادارے ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی ڈی سی پی) نے بین الاقوامی خریداری کے ٹینڈر میں سفید ریفائنڈ چینی کی مطلوبہ مقدار کم کر کے 50 ہزار میٹرک ٹن کر دی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے یورپی تاجروں کے حوالے سے منگل کو خبر جاری کی ہے کہ اس سے پہلے ٹینڈر میں تین سے پانچ لاکھ میٹرک ٹن چینی طلب کی گئی تھی۔
قیمتوں کی پیشکش جمع کرانے کی آخری تاریخ بھی 18 جولائی سے تبدیل کر کے اب 22 جولائی کر دی گئی ہے۔
اب درآمد کی جانے والی چینی 25 ہزار میٹرک ٹن کی دو کھیپوں میں طلب کی گئی ہے، جو یکم سے 15 اگست کے دوران روانہ ہو گی۔ خریدی گئی پوری مقدار کو 30 اگست تک پاکستان پہنچنا لازمی ہے۔
پاکستانی حکومت نے آٹھ جولائی کو چینی کی قیمتوں میں استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے پانچ لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کے منصوبے کی منظوری دی تھی۔ مارکیٹ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک میں جنوری سے اب تک ریٹیل چینی کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان خود کفیل ہونے کے باوجود پہلے چینی برآمد اور پھر درآمد کیو کرتا ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان چینی کی پیداوار میں خود کفیل ہونے کے باوجود پہلے چینی برآمد اور پھر درآمد کرنے کا عمل کئی اقتصادی، سیاسی اور انتظامی عوامل پر مبنی ہے۔
اضافی پیداوار کے وقت برآمدات
جب چینی کی مقامی پیداوار طلب سے زیادہ ہوتی ہے، تو حکومت یا نجی شوگر ملیں چینی کو برآمد کرتی ہیں تاکہ
سٹاک کو کم کیا جا سکے، مقامی قیمتوں میں استحکام آئے اور زرمبادلہ کمایا جا سکے۔
برآمدات پر سبسڈی
ماضی میں حکومت نے شوگر ملز کو چینی برآمد کرنے کے لیے سبسڈی دی، جس سے ملز کو عالمی مارکیٹ میں مسابقت کے قابل بنایا گیا۔ اس کا مقصد صنعت کو سہارا دینا ہوتا ہے، مگر اس کے اثرات اکثر عوام کو مہنگی چینی کی صورت میں بھگتنا پڑتے ہیں۔
پیداواری تخمینوں میں غلطی
اکثر گنے کی پیداوار یا چینی کی پیداوار کے بارے میں کیے گئے تخمینے غلط ثابت ہوتے ہیں۔ اگر تخمینہ غلط ہو اور پیداوار کم ہو جائے تو بعد میں قلت کا سامنا ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں چینی کی درآمد کرنا پڑتی ہے۔
ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری
بعض کاروباری گروپ چینی کی مصنوعی قلت پیدا کرتے ہیں، پہلے چینی برآمد کی جاتی ہے، بعد میں مقامی مارکیٹ میں قلت ظاہر کر کے قیمتیں بڑھائی جاتی ہیں، پھر حکومت درآمد کرتی ہے اور سبسڈی دیتی ہے — اس عمل سے مخصوص طبقے کو دوہرا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
سیاسی اثر و رسوخ
پاکستان میں کئی شوگر ملز سیاستدانوں یا بااثر افراد کی ملکیت ہیں۔ پالیسی سازی پر ان کا اثر ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں ذاتی مفاد پر مبنی فیصلے کیے گئے ہیں۔
درآمد کا مقصد قیمتیں کنٹرول کرنا
جب مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں شدید اضافہ ہوتا ہے تو حکومت درآمد کا فیصلہ کرتی ہے تاکہ سپلائی بڑھے اور قیمت نیچے آئے، عوامی غصے کو کم کیا جا سکے۔
مقدار ٹن | مالی سال |
535 | 2015–16 |
9305 | 2016–17 |
8708 | 2017–18 |
7518 | 2018–19 |
7683 | 2019–20 |
282705 | 2020 |
311939 | 2021 |
281328 | 2020–21 |
312393 | 2021–22 |
0 | 2022–23 |