وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنما ماما قدیر بلوچ چل بسے

ماما قدیر بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ضلع سوراب سے تھا اور ان کی تدفین آبائی علاقے سوراب میں کی جائے گی۔

ماما قدیر بلوچ ہفتے کو کوئٹہ میں 80 برس سے زائد عمر میں چل بسے (وی بی ایم پی/ایکس)

بلوچستان میں لاپتہ افراد کے لیے سرگرم غیر سرکاری تنظیم ’وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز‘ (وی بی ایم پی) کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ ہفتے کو کوئٹہ میں 80 برس سے زائد عمر میں چل بسے۔

تنظیم کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے ان کے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گذشتہ کئی ماہ سے دمہ، ٹی بی اور جگر کے عارضے میں مبتلا تھے اور ان کا کراچی میں متعدد بار علاج کرایا گیا۔

حالیہ دنوں میں وہ کوئٹہ کے ایک نجی ہسپتال میں زیر علاج تھے، جہاں ہفتے کو ان کا انتقال ہوا۔

نصر اللہ بلوچ کے مطابق ماما قدیر کا تعلق بلوچستان کے ضلع سوراب سے تھا اور ان کی تدفین آبائی علاقے سوراب میں کی جائے گی۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی بنیاد 2006 میں رکھی گئی تھی، جس کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ ہیں۔ 

ماما قدیر چھ جون، 1940 کو قلات ڈویژن کے ضلع سوراب میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم سوراب سے حاصل کی، میٹرک خضدار جبکہ انٹرمیڈیٹ کوئٹہ سے مکمل کیا۔

زمانہ طالب علمی ہی سے وہ قوم پرست سیاست سے وابستہ رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے 1974 میں بینک کیشیئر کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا اور 2009 میں ریٹائر ہوئے۔

ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ان کے بیٹے جلیل ریکی 2006 میں لاپتہ ہو گئے تھے، جن کی لاش تین سال بعد ضلع کیچ سے ملی۔

بیٹے کی گمشدگی کے بعد وہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز سے وابستہ ہو گئے اور تنظیم کے وائس چیئرمین کے عہدے پر فائز رہے۔

انہوں نے لاپتہ افراد کے مسئلے پر بے شمار احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیا اور کوئٹہ و کراچی پریس کلب کے سامنے تقریباً پانچ ہزار سے زائد دنوں تک احتجاجی کیمپ لگائے رکھا۔

اس کے علاوہ انہوں نے لاپتہ افراد کے حق میں کوئٹہ سے کراچی، لاہور اور اسلام آباد تک پیدل لانگ مارچ بھی کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان