اکبر نام کا شیر سیتا نامی شیرنی کے ساتھ نہیں رہ سکتا، مقدمہ عدالت میں

وشو ہندو پریشد کے رہنما انوپ مونڈل نے اتوار کو کہا کہ سیتا مغل شہنشاہ اکبر کے ساتھ نہیں رہ سکتی کیوں کہ ملک کی اکثریتی ہندو آبادی کے جذبات مجروح ہوں گے۔

پانچ جنوری 2021 کو لی گئی تصویر میں احمد آباد سے تقریبا 330 کلومیٹر دور ساسن گر کے نیشنل پارک میں موجود شیر (اے ایف پی / سیم پنتھاکی)

انڈیا میں ہندو قوم پرست تنظیم نے عدالت میں درخواست دائر کی ہے کہ چڑیا گھر میں موجود شیر، شیرنی کے ایک جوڑے کو اکٹھا نہ رکھا جائے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ شیر کا نام 16 صدی کے مغل شہنشاہ اکبر اور اور شیرنی کا ہندو دیوی سیتا کے نام پر ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دائیں بازو کی معروف ہندو تنظیم وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے ریاست مغربی بنگال میں سیتا نامی شیرنی اور اکبر نامی شیر کو ایک ہی جگہ رکھنے کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد عدالت سے رجوع کیا۔

اکبر مغل شہنشاہ تھے جنہوں نے برصغیر پاک و ہند کے زیادہ تر حصوں پر مسلم حکومت قائم کی۔ اب ہندو قوم پرست گروپوں کا کہنا ہے کہ وہ غلامی کا دور تھا۔

وشو ہندو پریشد کے رہنما انوپ مونڈل نے اتوار کو کہا کہ سیتا مغل شہنشاہ اکبر کے ساتھ نہیں رہ سکتی کیوں کہ ملک کی اکثریتی ہندو آبادی کے جذبات مجروح ہوں گے۔

وشو ہندو پریشد  نے جمعے کو عدالت کو درخواست دی ہے جس میں شیروں کی جوڑی کا نام تبدیل کرنے کی استدعا بھی کی گئی ہے۔

وی ایچ پی نے عدالت میں دائر اپنی درخواست میں کہا: ’اس طرح کا عمل توہین مذہب کے مترادف ہے اور تمام ہندوؤں کے مذہبی عقیدے پر براہ راست حملہ ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ناقدین کا کہنا ہے کہ 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں مذہبی عدم رواداری میں اضافہ ہوا ہے۔

توقع کی جا رہی ہے کہ اپریل میں ہونے والے عام انتخابات میں مودی تیسری بار اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

مونڈل نے کہا کہ اکبر نامی شیر کا نام پہلے ہندو دیوتا رام کے نام پر رکھا گیا تھا جب وہ پڑوسی ریاست تری پورہ میں تھا جہاں مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا کنٹرول ہے۔

لیکن شیر کا نام اس وقت بدل دیا گیا جب اسے مغربی بنگال لایا گیا جہاں اپوزیشن ترنمول کانگریس پارٹی کا کنٹرول ہے۔

وشو ہندو پریشد کی درخواست میں چڑیا گھروں میں جانوروں کے لیے مذہبی ناموں کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

مغربی بنگال محکمہ جنگلات کے افسر دیپک کمار منڈل نے کہا کہ شیر اور شیرنی کو اب الگ کر دیا گیا ہے۔

عدالت 20 فروری کو وی ایچ پی کی درخواست کی سماعت کرے گی۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا