قدیم ایتھنز: جب جنگ میں بھی فریب کو برا سمجھا جاتا تھا

قدیم یونانی معاشرے میں تیر اندازی کے ذریعے دور سے حملہ کرنا غیر اخلاقی سمجھا جاتا تھا اور آمنے سامنے کی لڑائی کو ترجیح دی جاتی تھی۔

چوتھی صدی عیسوی میں ایتھنز کے سپاہی اور پیلوپونیسیا کے ہوپلائٹ کے درمیان جنگ کا ایک منظر (پبلک ڈومین)

تاریخ میں تشدد بدلتا رہا ہے۔ کبھی اس میں اضافہ ہو جاتا ہے اور کبھی اس میں کمی آ جاتی ہے، لیکن یہ ختم نہیں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے معاشرے میں امن و مان قائم نہیں ہوتا اور نہ ہی سماجی تعلقات میں لوگ آپس میں ملتے ہیں۔ تشدد انسان کی امن کی خواہش کو کچل کر رکھ دیتا ہے۔

انسانی تاریخ میں تشدد کو حکمران طبقوں نے اپنے سیاسی استحکام کے لیے استعمال کیا ہے۔ مخالفوں کو اذیتیں دی ہیں۔ انہیں سولی پر چڑھایا ہے تاکہ وہ کوئی مزاحمت نہ کر سکیں اور حکومت کی جابرانہ پالیسی کو برداشت کریں۔ تشدد کا تاریخی کردار کیا رہا ہے، اس موضوع پر مارک ایس میکیل اور فلپ ڈوائر کی مرتب کردہ کتاب ON VIOLENCE IN HISTORY ہے۔ اس کتاب میں مختلف مورخیں نے تشدد کے کئی پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے۔ اس میں سے ایک مضمون میتھیو ٹینڈن کا ہے، جس نے یونانی ریاست ایتھنز کے معاشرے میں تشدد پر روشنی ڈالی ہے۔

ابتدائی تاریخ میں ایتھنز کی آبادی کم تھی۔ اس لیے جنگ کے موقعے پر دونوں جانب سے تھوڑے وقت میں فیصلہ ہو جاتا تھا۔ شکست کھانے والا گروہ فرار ہوتے وقت اپنے ہتھیار بھی چھوڑ جاتا تھا۔ دشمن کا تعاقب کرنے کی روایت نہ تھی۔ ہتھیار بھی تیر کمان اور نیزہ ہوتے تھے، مگر اس زمانے میں تیر اندازی کے ذریعے دور سے حملہ کرنا غیر اخلاقی سمجھا جاتا تھا اور آمنے سامنے کی لڑائی کو ترجیح دی جاتی تھی۔

جنگ میں فریب یا دھوکہ بازی نہیں کی جاتی تھی۔ اس لیے مشہور یونانی مقرر ڈیموستھینیز نے تین قبل مسیح میں میسوڈونیا کے بادشاہ فلپ، جو سکندر یونانی کا باپ تھا، پر اعتراض کیا ہے کہ اس نے جنگ میں حیلہ سازی کی تھی۔

ایک اور رومی مورخ نے مقدونیہ کے بادشاہ پر الزام لگایا ہے کہ اس نے جنگ میں دھوکے بازی کی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ ابتدائی دور میں اخلاقیات پر عمل ہوتا تھا۔

اس ابتدائی دور میں لوگ رہنمائی کے لیے ماضی کی جانب دیکھتے تھے۔ ان کے لیے سنہری زمانہ ماضی میں تھا۔ ایک یونانی مفکر ہیسیوڈ نے تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ سونا، پیتل، لوہا۔ یعنی معاشرہ سونے کے زمانے سے گزر کر تپیل اور لوہے کے زمانے میں آیا اور لوہے کا عہد تاریخ میں سخت مشکلات کا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آبادی کے بڑھنے دفاعی جنگوں اور دوسرے جزیروں پر حملہ کرنے کی وجہ سے نئے نئے ہتھیار بنائے گئے۔ فوجی تربیت دی گئی۔ یہ فوجی ہیلیٹوس (Heliots) کہلاتے تھے۔ اینتھنز کے ہر شہری کے لیے جنگ میں شرکت کرنا لازمی تھا۔

جب ایتھنز کسی دوسرے ملک پر حملہ کرتا تھا تو بڑے عرصے تک فوجیوں کے خاندان کو ان کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلتا تھا۔ جنگ میں مرنے والوں کو ہیرو کا درجہ دیا جاتا تھا۔

جنگ کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار اسمبلی کو تھا۔ اور یہ بھی اسمبلی کا اختیار تھا کہ مفتوح جزیرے کے لوگوں کو قتل کر کے ان کے جزیروں پر قبضہ کیا جائے۔ اگر ایتھنز کا کوئی فوجی جنگی لڑائی میں ناکام ہو جاتا تھا تو اس کو بطور سزا جلا وطن کر دیا جاتا تھا۔ میدان جنگ میں فوجی پیدل لڑا کرتے تھے۔ ان کے ہتھیاروں میں ایک ڈھال اور نیزہ ہوا کرتا تھا۔

ان کی فوجی طاقت بحریہ کے جہازوں سے بھی تھی جس میں مسلح فوجی سفر کرتے تھے۔ سمندری جنگوں میں انہوں نے ایرانیوں کو کئی شکستیں دیں۔ بحری طاقت کی وجہ سے ایتھنز کا رویہ ایمپیریل ہو گیا تھا۔

ایتھنز میں تین طرح کا حکومتی نظام رہا جس میں بادشاہت، چندسری (Oligarchy) اور جمہوریت یا مجمعے کی حکومت(Mob Rule)۔ جب تک ریاست کا ادارہ سیاسی طور پر مضبوط رہا، اس نے معاشرے میں تشدد کو روکے رکھا۔ تشدد کو روکنے کے لیے خود ریاست پر تشدد ہو گئی۔ سزاؤں کے ذریعے معاشرے کو قابو میں رکھا جانے لگا۔ لیکن جب ادارے خود انتشار کا شکار ہوئے تو جگہ جگہ تشدد کے واقعات ہونے لگے۔ جن کی روک تھام نہیں کی گئی۔

اس نظریے کے تحت جب ہم تاریخ میں حکومتوں کے عروج و زوال کو دیکھتے ہیں تو عروج کے وقت معاشرہ قانونی حدود میں رہتا ہے، لیکن جب ریاست اور اس کے ادارے ٹوٹ جاتے ہیں تو غیر قانونی طور پر ایسے گروہ سامنے آتے ہیں جو اپنی طاقت اور تشدد سے ریاست کی جگہ لے لیتے ہیں۔

یہ اپنی فوج رکھتے ہیں، غنڈہ گردی کے ذریعے عوام کو ڈراتے دھمکاتے ہیں، مخالفین کو اذیتیں دے کر قتل بھی کرتے ہیں، اور لوٹی ہوئی دولت جمع کر کے اپنے محافظوں کی نگرانی میں زندگی گزارتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ